ماحولیاتی تباہی: ایک سرمایہ دارانہ بحران

خیبرپختونخواہ، کشمیراورگلگت بلتستان کے بعد سیلاب اب پنجاب میں میں پہنچ گیا ہے۔ یہ تباہ کن سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ دارانہ طریقہ پیداوار کا نتیجہ ہے۔ جس میں منافع کی ہوس کی وجہ سے وسائل کا بے دریغ استعمال  کیا جاتا ہے جو ماحول کو برباد کر تا ہے۔ سیلاب نے تباہی مچادی ہےاب تک 15 لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔25 افراد ہلاک ہوئے جبکہ پورے ملک میں ہلاکتوں کی تعداد 800 سے زائد ہوچکی ہے۔

دیہی غریب، ہجرت اور معاشی تباہی

پنجاب میں سیلاب سے لاکھوں لوگ بے گھر اور اپنے علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہزاروں گھر، اسکول، صحت مراکز اور سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اس تباہی کا سب سے بڑا خمیازہ غریب اور محنت کش عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جن کا پہلے ہی مشکل سے گزارا ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں اس لیے دیہات اور مزدور بستیاں فنڈز اور منصوبہ بندی کی عدم موجودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے بعد آنے والا مہنگائی کا طوفان ان کی رہی سہی معاشی حالت کو بھی تباہ کر دے گا۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں آنے والے سیلاب کے بعد اب پنجاب میں بھی سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ جس کا سب سے زیادہ اثر پنجاب کے دیہی علاقوں پر پڑا ہے جہاں ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ سیلاب زراعت پر منحصر لوگوں کے لیے معاشی تباہی لیاہے جو پہلے ہی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے غربت اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔

عالمی سرمایہ داری، گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج اور موسمیاتی تبدیلی

سرمایہ دارانہ نظام میں ہر کمپنی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے اور منڈی پر کنٹرول کی دوڑ میں ہوتی ہے۔ یہ مسابقت قدرتی وسائل کے بے دریغ استحصال کا باعث بنتی ہے جس سے ماحولیاتی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پام آئل کی صنعت اس کی ایک واضح مثال ہے۔ دنیا کی بڑی کمپنیاں جیسے یونیلیور، نیسلے اور پروکٹر اینڈ گینبل اپنی مصنوعات میں پام آئل کا بڑے پیمانے پر استعمال کرتی ہیں۔ اس کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ممالک میں وسیع پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تاکہ پام آئل کے باغات لگائے جا سکیں۔ اس سے نہ صرف جنگلی حیات ختم ہو رہی ہیں بلکہ یہ عمل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی اضافہ کر رہا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کا سبب ہے۔

اسی طرح بڑی کمپنیاں خاص طور پر توانائی، تیل اور گیس کے شعبے میں فوسل ایندھن (کوئلہ، تیل، اور گیس) کا بے تحاشا استعمال کر کے بھاری مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتی ہیں۔ یہ گیسیں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں جس کے نتیجے میں موسموں کا قدرتی توازن بگڑ چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی 100 بڑی کمپنیوں کا اخراج عالمی اخراج کا 70 فیصد ہے۔ اس بے لگام اخراج نے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے گلیشیئرز کو تیزی سے پگھلایا ہے جس کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور سیلاب بار بار آرہے ہیں اور ان کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔

بھارت میں موسمیاتی تبدیلی اور پنجاب پر اثرات

پاکستانی پنجاب میں حالیہ تباہ کن سیلاب کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے جو خطے میں شدید اور غیر معمولی بارشوں کا سبب بنی ہے۔ بھارت کے مختلف ریاستوں خاص طور پر ہماچل پردیشاور،اتراکھنڈ،پنجاب،ہریانہ میں حالیہ دنوں میں ہونے والی تباہ کن بارشوں کے نتیجے میں ڈیمز میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ اس صورتحال میں سیلاب نے بھارت میں بھی خؤفناک تباہی پھیلائی۔ بھارت نے پانی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے اپنے ڈیمز جیسے کہ ستلج دریا پر بنے بھاکڑا ڈیم کے دروازے کھول دیئے جس کی وجہ سے پاکستان کے پنجاب میں ستلج،چناب اور راوی دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی اورسیلاب آگیا۔ یہ صورتحال واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہے کہ جہاں موسمیاتی تبدیلیاں عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاوس گیسوں کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں وہاں اس کے اثرات صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری دنیا اور خطے کو متاثر کرتے ہیں۔ بھارت میں ہونے والی بارشوں کا براہ راست اثر پاکستانی پنجاب پر پڑا ہے۔جس نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔

حکمران طبقہ، دریاؤں اور قدرتی وسائل پر قبضہ

پاکستان میں سیلاب کی تباہی میں عالمی عوامل اہم ہیں لیکن قومی حکمران طبقہ بھی اس کا ایک اہم سبب ہے۔ یہ طبقہ سرمائے کے مفادات کی خاطر ایسی پالیسیاں بناتا ہے جو ماحول کو مزید تباہ کرتی ہیں۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن اور اس جیسی دیگر ہاؤسنگ سکیمیں کسانوں کو بیدخل کرکے دریاؤں اور ان کے اطراف کی زمین پر قبضہ کر کے ان کے فطری بہاؤ کو بدل دیتی ہیں۔ یہ تعمیرات سیلاب کے قدرتی راستوں میں رکاوٹ بنتی ہیں جس سے شہری اور دیہی علاقوں میں سیلاب کا پانی تیزی سے پھیلتا ہے۔ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد اور کراچی کی حالیہ اربن فلڈنگ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اب ایس آئی ایف سی کے تحت نام نہاد گرین پاکستان انیشیٹو اور گرین ٹورازم کی آڑ میں قدرتی وسائل اور معدنیات پر قبضے کیے جا رہے ہیں اور ترقی کے نام پر مزید تباہی اور بربادی کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔

ٹمبر مافیا اور جنگلات کی تباہی

خیبر پختونخواہ، کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیلاب کی بڑی وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے۔ ٹمبر مافیا کو دہائیوں سے ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ پورے پورے پہاڑوں کو درختوں سے محروم کر رہے ہیں۔ درخت سیلاب کے پانی کو روکنے اور اس کی رفتار کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں پانی کا بہاؤ تباہ کن ہو جاتا ہے جس سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوتی ہیں اور پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ حکمران طبقہ اس تباہی کے بعد اسے محض قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جاتا ہے۔

سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد ہی ماحولیاتی تباہی کو روک سکتی ہے

ماحولیاتی تباہی ایک طبقاتی سوال ہے۔اس لیے ماحولیاتی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی اور قومی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد ضروری ہے۔ یہ جدوجہد محض ماحولیاتی قوانین بنانے تک نہیں ہونی چاہیے ہے بلکہ اسے طریقہ پیداوار اور منافع پر مبنی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہمیں عالمی سطح پر اس ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرنی ہو گی اور ان کمپنیوں اور ممالک سے ماحولیاتی نقصان کے ازالے کا مطالبہ کرنا ہو گا اور قومی سطح پر ان منصوبوں کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی جو ترقی کے نام پر تباہی اور بربادی پھیلا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کی ہوس کو فطرت اور ماحول پر ترجیح ہوتی ہے اس لیے اس نظام میں ایسی تباہیاں آتی رہیں گئیں۔ ان تباہیوں کو عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد اور اس کے خاتمے سے ہی روکا جا سکتا ہے۔

Share this:

SOURCE:

https://socialist-resistance.org

Loading

Related posts