آپ کو کمیونسٹ کیوں ہونا چاہیے؟

|تحریر: فضیل اصغر|

پاکستان میں اس وقت مہنگائی، بیروزگاری، غربت، جہالت، لاعلاجی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ مگر اس طوفان سے کروڑوں مزدوروں، کسانوں، مزارعوں اور سفید پوش درمیانے طبقے کے ہی خیمے اُڑ رہے ہیں، سرمایہ داروں، بنکاروں، صنعتکاروں، جاگیرداروں، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں کے محلات پر آنچ بھی نہیں آ رہی۔

ایک طرف محنت کش عوام کی اکثریت 20 سے 25 ہزار روپے میں پورا مہینہ گزارنے پر مجبور ہے تو دوسری طرف حکمرانوں کی دولت اور عیاشیاں پہلے سے بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ جہاں محنت کش عوام کا ہر مہینے صرف بجلی کا بل ہی ان کی تقریباً پوری اجرت کھا جاتا ہے وہیں امیروں کے گھر چوبیس گھنٹے گرمیوں میں اے سی سے ٹھنڈے اور سردیوں میں ہیٹر سے گرم رہتے ہیں۔ اس صورت حال میں حکمران یہ رونا رو رہے ہیں کہ ملکی معیشت بحران میں ہے، لہٰذا آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق مہنگائی کرنا مجبوری ہے۔

معاشی بحران، مگر کس کے لیے؟

بھائی یہ کیسا بحران ہے جس میں حکمران طبقے کی دولت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے! اگر واقعتا بحران سب کے لیے ہے تو پھر ملک ریاض، میاں منشاء، آصف زرداری، نواز شریف، عمران خان، عاصم منیر سمیت تمام حکمران اشرافیہ کی دولت بھی کم ہونی چاہیے۔

در اصل ملکی معیشت بحران میں تو واقعی ہے مگر ہم جس نظام میں رہ رہے ہیں اسے سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بحران کا بوجھ محنت کش عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے کیونکہ یہ سرمائے اور منافع کا نظام ہے۔ اسی لیے چاہے جس کی بھی حکومت ہو بحران سے نکلنے کے دو ہی راستے اختیار کیے جاتے ہیں، ایک پچھلے قرضوں (جو نہ محنت کش طبقے نے لیے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے) کا سود اتارنے کے لیے نئے قرضے لینا (جو بعد میں محنت کش عوام نے ہی ادا کرنے ہیں) اور دوسرا ٹیکسوں میں اضافہ کر دینا (وہ بھی امیروں پر نہیں بلکہ بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں غریبوں پر۔۔ چینی، پتی، تیل، بجلی، تعلیم، صحت مہنگی کر کے)۔

اس نظام میں تمام رائج الوقت سیاسی پارٹیاں، عدلیہ، فوج، پولیس، میڈیا، مسجدیں، مندر، کلیسا، پارلیمنٹ، یونیورسٹیاں سب کچھ چند سرمایہ داروں کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ سرمایہ دار اپنی مرضی کی پالیسیاں بنواتے ہیں اور ڈنڈے کے زور پر انہیں لاگو کرواتے ہیں۔ اسی لیے جب مزدور، طلبہ، کسان اور سماج کی مظلوم پرتیں اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو پولیس، ایف سی، فوج ان پر تشدد کرتے ہیں اور انہیں گرفتار کرتے ہیں۔ بعد میں عدالتیں بھی ان کے خلاف فیصلے دیتی ہیں اور میڈیا بھی ان کے خلاف پراپیگنڈا کرتا ہے۔

کیا بحران کی وجہ کرپشن ہے؟

اب حکمران بڑی چالاکی سے اس ننگے عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام پر پردہ ڈالنے کے لیے میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے یہ پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ تو کرپشن ہے۔ یہی بات آج عمران خان کر رہا ہے، زرداری کے دور میں نواز شریف یہی بات کرتا تھا اور نواز شریف کے دور میں پیپلز پارٹی؛ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تو درحقیقت اس پراپیگنڈے کی بنیاد رکھی ہے۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کو اس معاشی بحران کی اصل وجوہات جاننے سے روکا جا سکے۔

در اصل موجودہ ملکی و عالمی معاشی بحران کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کا پیدا کردہ زائد پیداوار کا بحران (Crisis of Overproduction) ہے۔ یہ کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ اسی لیے آج امریکہ، برطانیہ، چین، جاپان، جرمنی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی بحران کا شکار ہیں۔

زائد پیداوار کے بحران کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر جتنی دولت پیدا کی جا رہی ہے اور بالخصوص جتنی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، محنت کش عوام کے مسلسل استحصال کے باعث منڈی میں اتنی قوت خرید موجود نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک پر انتشار استحصالی نظام ہے جو منصوبہ بندی کی بجائے بے ہنگم مقابلہ بازی اور انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور سماج کی فلاح و بہبود کی بجائے مٹھی بھر سرمایہ دار طبقے کی منافع خوری کی بنیاد پر چلتا ہے۔

اس نظام میں ساری دولت مزدور پیدا کرتے ہیں مگر اپنی ہی پیداوار کو واپس وہ خرید نہیں سکتے۔ خرید اس لیے نہیں سکتے کیونکہ ذرائع پیداوار (وہ ذرائع جن سے دولت پیدا ہوتی ہے جیسے فیکٹریاں، مشینری وغیرہ) چند سرمایہ داروں کی نجی ملکیت و کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت چند سرمایہ داروں کی ملکیت بن جاتی ہے اور وہ مزدوروں کو ان کی محنت سے پیدا کی گئی دولت کے مقابلے میں نہایت کم اجرت دیتے ہیں۔ مزدوروں کی محنت کے اس استحصال سے ہی پھر وہ منافع کماتے ہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں چند لوگ امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں اور اربوں غریب سے غریب تر۔ نتیجتاً زائد پیداوار کا بحران جنم لیتا ہے۔

2014ء میں آکسفیم نامی عالمی ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی۔ اس میں بتایا گیا کہ، جتنی دولت دنیا کی آدھی آبادی (3.5 ارب) کے پاس ہے اتنی صرف 8 امیر ترین لوگوں کے پاس ہے۔

پاگل پن کا راج

آج انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس لیے بھوکی نہیں ہے کہ خوراک کی کمی ہے، بلکہ اس لیے بھوکی ہے کیونکہ زائد پیداواری صلاحیت کی وجہ سے زیادہ خوراک پیدا ہو رہی ہے جو منڈی میں قوت خرید نہ ہونے کے سبب سرمایہ داروں کے مطلوبہ منافعے پر نہیں بک رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 29 لاکھ ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف 8 کروڑ سے زائد لوگ روز رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ اس کی ایک دوسری مثال پاکستان سے ہی لی جا سکتی ہے جہاں ملک میں بجلی پیدا کرنے کی انسٹالڈ کپیسٹی 46 ہزار میگاواٹ ہے۔ گرمیوں کے موسم میں ملک کی زیادہ سے زیادہ بجلی کی ڈیمانڈ بمشکل 27 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود نجی پاور کمپنیوں کی منافع خوری کی ہوس کے باعث ایک طرف تو روزانہ گھنٹوں کی لوڈ شیدنگ ہوتی ہے اور دوسری طرف بجلی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ یہ ہے پاگل پن پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام۔

پاکستان میں ہر سال لاکھوں لوگ قابل علاج بیماریوں سے مر رہے ہیں، اس لیے نہیں کہ دوائیاں کم ہیں بلکہ اس لیے کہ ان کے پاس دوائیاں خریدنے کے اور ایک صحت مند زندگی گزارنے کے پیسے نہیں ہیں۔ یعنی اگر آپ کی جیب میں کاغذ کا ایک ٹکڑا جس پر جناح کی تصویر بنی ہوئی ہے، نہیں ہے، تو آپ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے! تعلیم، ٹرانسپورٹ الغرض آپ کسی بھی شعبے کو اٹھا لیں وہاں آپ کو یہی کچھ دیکھنے کو ملے گا۔

یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار ہیں تو دوسری طرف غربت اور بیروزگاری کا سیلاب! ایک طرف کروڑوں گاڑیاں بغیر بکے فالتو پڑی ہیں اور دوسری طرف لوگ خستہ حال بسوں پر دھکے کھا رہے ہیں اور حادثوں میں مر رہے ہیں۔ بجری، سیمنٹ بے تحاشہ ہے لیکن سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ کپڑوں کے تھان کے تھان بغیر بکے پڑے ہیں لیکن لوگ پھٹے ہوئے کپڑوں میں پھر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیاں پورے سیارے کو تباہ کرتی جا رہی ہیں مگر سرمایہ دار اپنے منافعوں کے لیے فیکٹریوں سے خطرناک دھواں خارج کرواتے جا رہے ہیں۔ کروڑوں محنت کش بیروزگار بیٹھے ہیں اور جن ورکرز کا روزگار ابھی تک بچا ہوا ہے ان سے مقررہ وقت سے کہیں زیادہ کام لیا جا رہا ہے حالانکہ زیادہ لوگوں کو روزگار دے کر کام کے اوقات کار کو کم کیا جا سکتا ہے۔

روبوٹس اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس موجود ہے، روز دور دراز سیاروں پر روبوٹک خلائی مشن جا رہے ہیں مگر زمین پر آج بھی گٹر انسان صاف کر رہے ہیں۔ مشینیں ’آرٹ‘ تخلیق کر رہی ہیں اور انسان مشین کا پرزہ بن کر روز جوتے، کپڑے، گاڑیاں بنا رہا ہے۔ مشینوں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانوں کا کام آسان ہونا چاہیے تھا مگر ہر نئی پیشرفت جیسے آرٹی فیشل انٹیلی جنس اُلٹا بیروزگاری بڑھانے کی وجہ بنتی جا رہی ہے۔ آئے روز اربوں انسان زندہ رہنے کے لیے وہ کام کرنے پر مجبور ہیں جس میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ تعلیمی اداروں میں سرمایہ داروں کے کاروبار چلانے کے لیے نوکر تیار کیے جا رہے ہیں نہ کہ سوچنے سمجھنے والے تخلیقی انسان۔

کمیونسٹ کیا کہتے ہیں؟

کمیونسٹ یہ کہتے ہیں کہ اس بحران سے جان صرف ایک صورت میں چھڑائی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ ہر ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت پر قائم سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کر کے تمام ذرائع پیداوار کو مزدور ریاست کے ذریعے محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے۔ اس کے بعد تمام وسائل اور پیداوار کو منصوبہ بندی کے تحت پورے سماج کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جائے گا نہ کہ چند امراء کی عیاشیوں اور منافعوں کے لیے۔

پاگل کون؟

اپنے غیر منطقی اور عوام دشمن نظام کو زندہ رکھنے کے لیے حکمران پاگل پن کو عقل مندی قرار دے دیتے ہیں۔ تمام تر وسائل اپنے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے وہ میڈیا، یونیورسٹیوں وغیرہ کے ذریعے یہ پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ ایسا تو ہمیشہ سے ہی تھا۔ سماج میں ہمیشہ امیر اور غریب رہے ہیں۔ پولیس، فوج، عدالتیں بھی رہی ہیں۔ نجی ملکیت بھی رہی ہے۔ یہ سب اس لیے ہیں کیونکہ انسان فطری طور پر خود غرض اور لالچی ہے، انسان طاقت کا پیاسا ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی اسی لالچ کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا جو کوئی یہ سوچتا ہے کہ نجی ملکیت ختم ہو جائے، امیر اور غریب کا طبقاتی نظام ختم ہو جائے، کسی کو اپنی نجی جائیداد بنانے کی نہ اجازت ہو اور نہ ضرورت ہو، کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی محنت کا استحصال نہ کر سکے، وہ پاگل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی سماج کی تاریخ کا ایک بہت ہی بڑا حصہ ایسا رہا ہے جب نجی ملکیت اور طبقاتی سماج تھا ہی نہیں۔ عظیم انقلابی فریڈرک اینگلز نے اپنی کتاب ”خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ میں بشریاتی تحقیقی شواہد کے ساتھ اس عرصے کو بیان کیا ہے۔ اس دور کو اینگلز نے ’قدیم کمیونزم‘ کا نام دیا۔ اس دور میں مقابلہ بازی اور مسابقت کا تصور ہی موجود نہیں تھا۔ وہ اس لیے کیونکہ تب سخت فطری حالات میں انسانوں کے لیے زندہ رہنے کے لیے باہمی اشتراک سے رہنا ضروری تھا۔

اسی طرح اس وقت نجی ملکیت کا بھی کوئی تصور نہیں تھا اور اس کی وجہ کوئی اعلیٰ اخلاقیات نہیں تھیں بلکہ یہ سادہ سی مادی حقیقت تھی کہ اس دور کا ایک انسانی قبیلہ یا گروہ اپنی پسماندہ ٹیکنالوجی سے جو تھوڑی بہت خوراک حاصل کرتا تھا، اسے فوراً ہی استعمال کر لیتا تھا، لہٰذا پیچھے کچھ بچتا ہی نہ تھا جس پر ملکیت کا دعویٰ کیا جا سکے۔

دراصل انسان نہ تو فطری طور پر لالچی ہے اور نہ ہی سخی بلکہ سماجی و معاشی حالات اس کے شعور کا تعین کرتے ہیں۔ ایک ایسا سماج جس کی بنیاد ہی مقابلہ بازی ہو اور جس میں زندہ رہنے کی بنیادی شرط ہی دوسروں کو روندنا ہو، اس میں عمومی سماجی سوچ لالچ پر ہی مبنی ہو گی۔ بہر حال انقلابات کے دوران یہی ’لالچی‘ انسان اجتماعیت اور باہمی اشتراک کی عظیم مثال بن جاتے ہیں اور پورے نظام کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

آپ کو کمیونسٹ کیوں ہونا چاہیے؟

آج پوری دنیا میں جتنے وسائل موجود ہیں اگر انہیں چند سرمایہ داروں کی ملکیت و کنٹرول سے چھین کر پورے سماج کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں لے لیا جائے اور منصوبہ بندی سے استعمال میں لایا جائے تو چند ہفتوں میں ہی پوری دنیا سے غربت، جہالت، لاعلاجی، بیروزگاری وغیرہ جیسی مصنوعی لعنتوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

کمیونزم کی جدوجہد محض انسان کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج دینے کی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا سماج تخلیق کرنے کی ہے جس میں انسان دوسرے انسانوں کی غلامی اور استحصال سے آزاد ہو۔ جس میں ہر شخص مشین کے ایک پرزے کی بجائے ایک سوچنے سمجھنے والے تخلیقی انسان کے طور پر زندہ رہے۔ جس میں چند امیر لوگ یا پیسہ انسانوں کی اکثریت کی تقدیر کے فیصلے نہ کرے بلکہ انسانوں کی اکثریت خود اپنی تقدیر کے فیصلے کرے۔

جب اربوں محنت کش عوام محض زندہ رہنے کے لیے کولہو کے بیل کی طرح ساری زندگی ایک ہی چکر میں گھومتے رہنے کی بجائے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک بھرپور زندگی گزاریں گے، جس سے پورے سماج کو فائدہ بھی ہو گا، تو اسی زمین پر جنت تعمیر کی جا سکتی ہے۔

کمیونزم محض ایک انسانیت دوست ’خیال‘ نہیں ہے بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت کہ جس کی طرف اگر آج نسل انسانی نہیں گئی تو پھر ہمارا مستقبل جنگوں، خانہ جنگیوں، مہنگائی، بیروزگاری، انسانی صلاحیتوں کے ضیاع، ماحولیاتی تباہی؛ یعنی بربریت ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بالکل بجا ہو گا کہ اگر سرمایہ داری کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ نہ کیا گیا تو یہ نوع انسان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دے گی۔ لہٰذا موجودہ دور میں کمیونزم کے لیے جدوجہد نہ کرنا ’پاگل پن‘ ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیسے ہو گا؟

سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہو گا۔ اس انقلاب کے معروضی حالات سرمایہ دارانہ نظام اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے خود پیدا کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں موجود محنت اور سرمائے، سماجی ضرورت اور منافع کا تضاد محنت کشوں کو ہڑتالیں اور احتجاج کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ محنت کشوں کی یہی جدوجہد بالآخر ایک وقت پر جا کر پھر انقلاب کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر درست سائنسی نظریات (سائنسی سوشلزم یا کمیونزم) اور پروگرام سے لیس ایک انقلابی پارٹی موجود ہو تو اس کی قیادت میں وہ پرانے نظام کو اُکھاڑ پھینک کر نیا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

سوشلسٹ انقلاب طاہر القادری یا عمران خان والا نام نہاد ’انقلاب‘ نہیں ہوتا جسے سرمایہ دار حکمران اشرافیہ اور جرنیلوں کے ہی ایک دھڑے کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے اور اس کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو ہی کچھ لیپا پوتی کر کے بچانا ہوتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کو لیڈ بڑے بڑے محلات میں رہنے والے امیر زادے نہیں کرتے بلکہ مزدور، کسان اور طلبہ خود اپنے لیڈر تراشتے ہیں۔ یہ لیڈر پیسے کے زور پر لیڈر نہیں بنتے بلکہ اپنے نظریات، انقلابی جرات، ایمانداری اور قائدانہ صلاحیتوں کے باعث عملی جدوجہد کے دوران لیڈر بن کر ابھرتے ہیں اور محنت کش عوام اپنی اپنی فیکٹری، محلے، دیہات اور تعلیمی اداروں میں انہیں چنتے ہیں۔

محنت کش عوام کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ شامل ہو کر کمیونسٹ بھی اپنا انقلابی مؤقف مزدوروں اور کسانوں کے سامنے رکھتے ہیں اور صبر کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے ایک حقیقی جمہوری عمل میں انہیں قائل کر کے ان کی قیادت حاصل کرتے ہیں۔ پھر یہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی اپنی نظریاتی درستگی، جرات، تنظیم کاری اور سیاسی تجربے کی بنیاد پر محنت کش طبقے کی قیادت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کو یقینی بناتی ہے۔

اس انقلاب میں سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور ایک مزدور ریاست قائم کی جاتی ہے۔ مزدور فیکٹریوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ کسان اور مزارعے، جاگیرداروں سے زمینیں چھین لیتے ہیں۔ طلبہ تعلیمی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ سمیت سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام ادارے جیسے فوج، عدلیہ، پولیس وغیرہ کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور محنت کش عوام فیکٹریوں، محلوں اور دیہاتوں میں اپنی جمہوری طور پر منتخب انقلابی کمیٹیوں اور لیڈر شپ کی صورت میں ایک نئی مزدور ریاست تشکیل دیتے ہیں۔ اس انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور کسی انسان کو یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوسرے انسان کی محنت کا استحصال کر کے منافع کمائے اور اپنی جائیداد اور کاروبار کو بڑھاتا جائے۔ یوں امیر اور غریب کے طبقات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

مزدور ریاست سرمایہ دارانہ ریاست سے کیسے مختلف ہو گی؟

یہ نئی ریاست محنت کشوں کی اپنی ریاست ہوتی ہے۔ اس ریاست کا مقصد محنت کش عوام کی فلاح و بہبود ہوتا ہے نہ کہ چند سرمایہ داروں کی۔ اس مزدور ریاست کا کام یہ ہوتا ہے کہ ملک میں جو بھی دولت پیدا ہو اسے فیکٹریوں، کھیتوں اور محلوں وغیرہ میں موجود محنت کش عوام کی جمہوری طور پر منتخب شدہ کمیٹیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے منصوبہ بندی کے تحت سماج کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرے۔ یہ مزدور ریاست تمام محنت کش عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج اور روزگار فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ تمام بنیادی ضروریات زندگی عوام کو مفت مہیا کی جائیں گی۔

موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کی طرح سوشلسٹ مزدور ریاست کو اوپر سے چند امیر لوگ نہیں چلاتے بلکہ اصل طاقت محنت کش عوام کی جمہوری طور پر منتخب شدہ کمیٹیوں کے پاس ہوتی ہے۔ اس ریاست میں یہ اصول ہوتا ہے کہ کسی بھی ریاستی اہلکار کو ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح پانچ سال بعد الیکشن کی بجائے کسی بھی وقت کسی بھی منتخب نمائندے پر عدم اعتماد کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یعنی کہ اگر کوئی منتخب نمائندہ ٹھیک کام نہیں کر رہا تو اسے اس کو منتخب کرنے والے محنت کش کسی بھی وقت ذمہ داری سے واپس ہٹا سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مزدور ریاست کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کش عوام کو ریاستی امور اور فیصلہ سازی میں شامل کرے تاکہ آہستہ آہستہ عوام کی اکثریت پورے سماج کو چلانے میں شعوری طور پر شامل ہوتی جائے۔ اسی طرح ہی یہ ممکن ہو پائے گا کہ چند لوگ پورے سماج کی تقدیر کا فیصلہ نہ کریں بلکہ پورا سماج خود کرے۔

کیا اس وقت عالمی سطح پر اور پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے محنت کش طبقہ تیار ہے؟

جی ہاں! پچھلے چند سالوں میں ہی دنیا کے بیشمار ممالک میں ہمیں عظیم الشان احتجاج، تحریکیں، ہڑتالیں اور عام ہڑتالیں دیکھنے کو ملیں۔ کچھ ممالک میں تو لوگوں نے حکمرانوں کے ایوانوں اور صدر اور وزیر اعظم کے محلات تک پر قبضہ کر لیا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ حالیہ سالوں میں ان ممالک میں سری لنکا، سوڈان، ایکواڈور اور کینیا قابل ذکر ہیں۔ ابھی جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، افریقی ملک کینیا میں نوجوانوں نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا ہوا ہے۔
یہ احتجاجی تحریکیں صرف غریب اور پسماندہ ممالک میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

پچھلے چند سالوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں مہنگائی سمیت دیگر مسائل کے خلاف لاکھوں محنت کش اور نوجوان سراپا احتجاج رہے ہیں۔ سب سے بڑھ یہ کہ اس وقت باقی دنیا کی طرح امریکہ اور یورپ میں بھی لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ فلسطین میں جاری بربریت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان میں طلبہ قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ترقی یافتہ ممالک کے طلبہ اپنی ڈگریوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ہزاروں میل دور واقع فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی جبر کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس تحریک سے واضح ہوگیا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے جاری احتجاجی تحریکیں اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔

یہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک عالمی بغاوت کا اعلان ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے آج عالمی نظام ہونے کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا کر دیے ہیں جو عالمی سطح پر لوگوں کو متاثر کرتے ہیں اور ان کا حل بھی عالمی سطح پر ہی ممکن ہے۔ مثلاً ماحولیاتی تبدیلی، دہشت گردی، جنگیں، مہنگائی وغیرہ۔ اب نئی نسل بھی اس حقیقت کو جان رہی ہے۔

کمیونسٹ بھی یہی کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے کرنا ہو گا۔ اس کے خاتمے کا آغاز یقیناً کسی بھی ایک ملک یا چند ممالک سے ہی ہو گا مگر اس سے مستقل بنیادوں پر چھٹکارا تب ہی ممکن ہے جب پوری دنیا سے اسے اکھاڑ پھینکا جائے۔

پاکستان میں بھی پچھلے چند سالوں میں ہمیں ملک کے مختلف حصوں میں لاکھوں لوگ سراپا احتجاج نظر آئے۔ اگرچہ ان احتجاجی تحریکوں کو سرمایہ دارانہ میڈیا نے کوریج نہیں دی یا پھر ان کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہوئے انہیں ملک دشمن سرگرمیاں قرار دیا۔

دہشت گردی اور ریاستی جبر کے خلاف پشتونوں کی عظیم الشان احتجاجی تحریک ”پشتون تحفظ موومنٹ“ میں لاکھوں لوگ سراپا احتجاج تھے اور ہزاروں نے اس کی پاداش میں ریاستی جبر کا سامنا کیا جو کہ تاحال جاری ہے۔ گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف اور دیگر بنیادی جمہوری حقوق کے لیے لاکھوں عوام نے احتجاج کیے۔

حالیہ عرصے میں جبری گمشدگیوں اور دیگر ریاستی جبر کے خلاف ”بلوچ لانگ مارچ“ کی صورت میں بلوچ عوام کی ایک عظیم الشان احتجاجی تحریک دیکھنے کو ملی۔ اس تحریک میں بھی سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ شامل تھے۔

ان تمام احتجاجی تحریکوں میں سب سے لڑاکا اور طاقتور تحریک ’آزاد‘ کشمیر کی تحریک ہے۔ یہ تحریک مہنگے بجلی کے بلوں کے خلاف شروع ہوئی اور اب بہت آگے جا چکی ہے۔ کشمیر میں پچھلے ایک سال سے زائد عرصے سے عوام کی اکثریت نے بجلی کے بل جمع نہیں کروائے۔ اس تحریک پر بہیمانہ ریاستی جبر کیا گیا، لوگوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں مگر لوگوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا اور بنیادی مطالبات کو وقتی طور پر ماننا پڑا۔ کشمیر کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں ایک انقلابی صورت حال بن گئی تھی۔ لوگوں نے ریاست کے خوف کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا اور ریاست مکمل طور پر مفلوج ہو چکی تھی۔

اسی طرح حالیہ عرصے میں چھوٹے سرکاری ملازمین و محنت کشوں کی بھی ایک عظیم الشان احتجاجی تحریک دیکھنے کو ملی۔ مختلف عوامی اداروں اور سرکاری محکموں کے چھوٹے سرکاری ملازمین و محنت کشوں کے ”آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس“ نامی متحدہ پلیٹ فارم سے پورے پنجاب میں لاکھوں نرسوں، اساتذہ وغیرہ نے زبردست جدوجہد کی اور ریاستی جبر کا سامنا کیا۔ اس سے پہلے کے پی کے اور بلوچستان میں بھی محنت کش ایسی ہی جدوجہد کر چکے ہیں۔

پچھلے چند سالوں میں فیسوں میں اضافے سمیت دیگر مسائل کے خلاف ملک کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ کے کئی احتجاج دیکھنے کو ملے۔ ان میں کرونا وبا کے عرصے میں بڑی احتجاجی تحریک، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور یونیورسٹی آف بلوچستان سمیت دیگر چند یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ کے خلاف احتجاج اور فیسوں میں اضافے کے خلاف قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، گلگت بلتستان میں ہزاروں طلبہ کی احتجاجی تحریک نمایاں ہے۔

حالیہ عرصے میں تباہ حال کسانوں نے بھی لاہور کی طرف لانگ مارچ کیا جس پر شدید ریاستی جبر کیا گیا۔ ان تمام احتجاجی تحریکوں سے یہ واضح ہے کہ آج محنت کش عوام ایک انقلابی تبدیلی کے لیے نا صرف تیار ہے بلکہ تڑپ رہی ہے۔

کہیں بھی انقلاب کامیاب کیوں نہیں ہو رہا؟

جب پاکستان سمیت پوری دنیا میں کروڑوں عوام سراپا احتجاج ہیں تو پھر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کہیں بھی انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہا۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے، وہ ہے انقلابی پارٹی کا فقدان۔

سری لنکا میں ایسے حالات بن گئے تھے کہ بس ایک اعلان کر نا تھا کہ بینکوں، فیکٹریوں، جاگیروں وغیرہ قبضہ کر لو؛ قبضہ ہو جانا تھا۔ مگر یہ کام انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہی کر سکتی تھی کیونکہ صرف کمیونسٹ ہی سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ یہی بات ایکواڈور، سوڈان اور دیگر تمام ممالک کے حوالے سے بھی درست ہے۔

پاکستان میں بھی یہ تمام احتجاجی تحریکیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ جاری رہیں۔ ان تحریکوں کی قیادت کمیونسٹ نہیں ہے، لہٰذا وہ ایک حد تک ہی ان تحریکوں کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد اس تحریک کے آگے بڑھنے کے لیے باقی تحریکوں سے جڑت اور سب سے بڑھ کر مزدوروں سے جڑت لازمی ہے۔ اسی طرح تمام رائج الوقت سیاسی پارٹیاں بھی سرمایہ دار حکمران اشرافیہ کی ہی پارٹیاں ہیں، لہٰذا ان کا تو ان احتجاجی تحریکوں سے تعلق ہے ہی دشمنی کا۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کی جانب بڑھو!

اگر اس وقت پورے ملک میں ایک قابل ذکر تعداد میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی موجود ہوتی تو وہ فوراً ان تمام احتجاجی تحریکوں کو آپس جوڑتی اور ان احتجاجی تحریکوں کو مزدور تحریک کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھتی۔ ایک ملک گیر عام ہڑتال کی صورت میں جب ریلوے، واپڈا، پوسٹ، فیکٹریوں سمیت ہر شعبہ ہڑتال پر ہوتا تو محنت کش عوام ایک ناقابل تسخیر قوت بن کر ابھرتے۔

ملک گیر عام ہڑتال سے عملی طور پر یہ ثابت ہو جاتا پورا سماج محنت کش چلاتے ہیں اور وہ اسے روک بھی سکتے ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر ایک بلب نہیں جل سکتا، ایک پہیہ نہیں گھوم سکتا اور جب چلا سب کچھ وہ رہے ہیں تو پھر اس پر ملکیت اور کنٹرول بھی انہی کا ہونا چاہیے۔ اس طرح سوشلسٹ انقلاب کی منزل کی جانب یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہوتی۔

ہم پاکستان میں ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی تعمیر کر رہے ہیں۔ ہم تمام طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس کے ممبر بنیں اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے تاریخی فریضے کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کریں۔

Loading