قسط نمبر -1
پروفیسر امیر حمزہ ورک
ُہندوستان مین اٹھارویں عام انتخابات مکمل ہو گئے-بڑے زبردست مقابلے کے بعد مودی کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کا تحاد نیشنل دیمو کریٹک الائینس پانچ سو تنتالیس کے ایوان مین 293 سیٹس لینے میں کامیاب ہوا اور یوں مودی پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد دوسرے سیاستدان ہیں جو
تیسری بار وزیر اعظم بن گئے- مودی اتحاد کے مد مقابل کانگرس کی قیادت میں انڈین نیشنل ینکلوسو الائینس (انڈیا) بنا جس نے مجموعی طور پر 234 سیٹیں حاصل کیں- مودی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائینس دائیں بازو کا انتہا پسند اتحاد ہے جس میں میں 37 سیاسی جماعتیں شامل ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتین علاقائی بنیادوں پر منظم ہین۔۔اس الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اپنی سیٹیں 240 ہیں یعنی حکومت بنانے کے لئے وہ 32 سیٹیں پیچھے تھی جس کمی کو اتھاد کی دیگر ضماعتوں نے مل کر جن کے پاس 53 سیٹس ہیں پورا کیا-کاص طور پر تلگو دیشم پارٹی آندھرا پردیش کی 16 اور بہار کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ کی 20 سیٹوں نے اس کمی کو دور کیا- اس اتحاد کی بنتر بڑی دلچسپ ہے۔۔بھارتی جنتا پارٹی کا جھکاو بظاہرہندو بنیاد پرستی اور اینٹی مسلم سمت مین ہے جبکہ الیکشن میں اس کی اتحادی دو پارٹیاں جو 38 سیٹیوں کی کی مالک ہیں وہ بی جے پی سے مختلف نقطہ نظر رکھتی ہیں مسلا” تلگو دیشم پارٹی۔۔ سیکولرازم،ریجنل ازم ،لبرل ازم اور نیو لبرل پالیسیوں کی حامی ہے اور جنتا دل بھی لبرلزم اور ڈیموکریٹک سوشلزم کی حامی ہے اور ایک جنوبی ہندوستان جبکہ دوسری مشرقی ہندوستان کی علاقائی پارٹی ہے۔۔۔۔۔ یہ امر قابل زکر ہے کی ہندوستان میں اقتدار کا مرکز علاقائی پارٹیان بنتی جا رہی ہیں لیکن یہ علاقائی پارٹیاں ہندوستان کی ایکتا اور اتھاد کے لئے اتنی ہی ہم خیال ہیں جتنی کہ کانگرس یا بھارتیہ جنتا پارٹی ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔
دوسری طرف کانگرس کی قیادت میں اتحاد (انڈیا) کی بنتر بلکل مختلف ہے- اس اتحادمیں 42 سیاسی جماعتیں شامل ہیں جس میں 10 بڑی اور 32 علاقائی جماعتیں ہیں-اس میں کانگرس سب سے بڑی جماعت ہے جس نے 90 انفرادی طور پر سیتیں جیتی ہیں اور اس اتھاد کی مجموعی سیٹیں 234 ہیں- کانگرس نے 2019 کے انتخابات سے 47 سیٹیں زیادہ جیتی ہیں جبکی بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ انتکابات کی نسبت 63 سیتیں ہار گئی ہے۔۔اس اتھاد کی
خاص بات یہ ہے کہ تمام بائیں بازو کی انتخابی سیاسی جماعتیں( کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا، کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ،سماج وادی پارٹی،کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لیننسٹ لبریشن،انقلابی سوشلسٹ پارٹی،آل انڈیا فارورڈ بلاک بنگال، مزدور کسان پارٹی مہاراشٹر، راجوردل آسام،) اس اتحاد کا حصہ ہین۔ اور دیگر جماعتیں بھی سیکولر خیالات کی حامی ہیں۔۔۔ بائیں بازو کی ان جماعتوں کے علاوہ ہندوستاں میں 13 اور بھی کیمونسٹ پارٹیاں ہیں جو علاقائی بنیادوں پر کام کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔اور ایک قدرے بڑی جماعت کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا ماؤسٹ ہے جو الیکشن پر یقین نہی رکھتی اور مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔۔ ان کے علاوہ 5 ٹراٹسکائیٹ گروپ بھی ہیں جو اپنے آپ کو کیمونسٹ اور مارکسسٹ کہتے ہیں۔۔۔بائیں بازو کی بہت بڑی لیکن بکھری ہوئی طاقت نے سنجیدگی کے ساتھ انڈیا اتھاد کو سپورٹ کیا۔۔۔کیونکہ ان بائیں بازو کی پارٹیوں کے علاوہ 50 کے لگ بھگ وہ کیمونسٹ گروپ ہیں جن کو ہندوستان حکومت نے غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے لیکن وہ زیر زمین کام کرتے رہتے ہیں۔
ان انتخابات کے نتیجے میں نرندرا مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نےتیسری بار حکومت بنائی ہے۔۔لیکن مودی کی پارٹی پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی اور الیکشن مہم میں مودی کے تمام دعووں اور مختلف سرویز پر عوام نے پانی پھیر دیا اور مودی وزیر اعظم بن کر بھی ہار گئے- اور ہندوستان کے عوام نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ آئین اور جمہوریت کے قدر دان ہیں-عوام نے بی جے پی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور جو اس پارٹی کو 2014 اور 2019 کے انتخابات میں کامیابی ملی تھی وہ گراف بہت نیچے آ گیا ہے اور اس کی سیٹیں 303 سے کم ہو کر 240 پر آگیئ ہے-اور اس کی مقبولیت مین 21 فیصد کمی واقع ہوئی ہے-
یہ بات بھی تجزیہ کرتے وقت یاد رکھنے کی ہے کہ یہ انتخابات مودی کی دس سال تک مسلسل حکومت میں ہونے کے بعد ہوئے ہیں- مودی نے ان دس سالوں میں جمہوریت کے نام پر جس طرح آمریت کا ڈنڈا چلایا، سیکولر انڈیا میں ہندواتا اور فرقہ وارانہ ایجنڈے کو فروغ دیا-آئین کا حلیہ بگاڑا گیا،ریاستی اداروں اور میڈیا پر قبضہ کیا گیا، اور اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے کی تمام کوششیں کی گئیں-الیکشن مہم مین وفاقی ایجنسیوں کو ملوث کیا دو وزرائے اعلی کو جیل میں ڈالا اور ہندوستان کی دو ملک گیر،غیر فرقہ وارانہ اور جمہوریت کی حامی جما عتوں کانگرس اور کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے مالی معاملات کو نشانہ بنایا-
انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن اور حکومتی پارٹی بی جے پی کے درمیان برابری کے مواقع فراہم نہی کئے گئے۔۔الیکشن کمیشن کا کمزور کردار کھل کر سامنے آیا-الیکشن کےضابطہ اخلاق کا جس طریقے سے مودی حکومت نے پرخچے اڑائے،مودی نے الیکشں کمپین میں جس طرح مسلمانوں کو ہدف تنقید بنایا،لیکن الیکش کمیشن جیسا ادارہ بھی مودی کا کچھ نہی بگاڑ پایا-بھارتیہ جنتا پارٹی نے دس سالہ اقتدار کے نتیجے میں کارپوریت میڈیا پر اجارہداری قائیم کی اور سوشل میڈیا پر بے پناہ روپیہ لٹایا۔۔۔۔۔ان تمام حربوں کے باوجود الیکشن کے رزلٹ نے مودی کے اعصاب شیل کر دئے ہیں- الیکشن مہم مین مودی کا سارا زور پاکستاں اور مسلم مخالف رہا جبکہ اپوزیشن کا سارا زور بےروزگاری،مہنگائی،زرعی مسائیل،جمہوریت اور آئین کے تحفظ پر رہا-اور پہلی بار ہندوستان کے عوام کی بڑی تعداد خاص کر دلت عوام نے معدی کی فرقہ وارانہ سیاست چیلنج کیا-
بی جے پی کی اکثریت سے محرومی کی وجہ اتر پردیش میں اسے جو دھچکا لگا ہے۔ 80 میں سے بی جے پی صرف 33 سیٹیں جیت سکی جب کہ پچھلے الیکشن میں 62 سیٹیں تھیں۔ اتر پردیش ہندوتوا کی سیاست کا مرکز ہے اور ایودھیا میں رام مندر ہندو بالادستی کے ایجنڈے کی علامت ہے۔ پھر بھی، اس کے باوجود، بی جے پی کے ووٹوں میں 9 فیصد کی کمی آئی۔ بے روزگاری، قیمتوں میں اضافہ، کسانوں کی عدم اطمینان اور اگنیور اسکیم کے خلاف نوجوانوں کے غصے اور امتحانی پرچوں کے لیک ہونے کے مجموعی مسئلے نے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو بہتر بنایا، جس کی مدد سماج وادی پارٹی کی طرف سے ذات پات کے اتحاد کی تعمیر سے ہوئی۔ فیض آباد حلقے کے موجودہ بی جے پی ایم پی کی شکست، جہاں ایودھیا واقع ہے، نے ووٹروں کی اس بیگانگی کو بالکل واضح طور پر سامنے لایا۔
انتخابات میں اوڈیشہ میں بیجو جنتا دل اور آندھرا پردیش میں وائی ایس آر سی پی کی فیصلہ کن شکست بھی دیکھی گئی، جہاں پارلیمنٹ اور اسمبلی دونوں انتخابات ایک ساتھ ہوئے تھے۔ انہوں نے لوک سبھا انتخابات کے علاوہ ریاستی حکومتیں کھو دیں۔ بی جے پی نے اوڈیشہ میں کامیابی حاصل کی ہے، لوک سبھا کی 21 میں سے 20 سیٹوں پر کلین سویپ کیا ہے اور اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی ہے۔ یہ دونوں ریاستیں علاقائی پارٹیوں کے لیے ایک سبق رکھتی ہیں – جو مودی حکومت کے ساتھ تعاون یا حمایت کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر آپ اس کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں تو بی جے پی آپ کو تباہ اور کھا جائے گی۔ صرف علاقائی پارٹیاں، جنہوں نے بی جے پی کی سخت مخالفت کی ہے، چاہے وہ ڈی ایم کے ہو، سماج وادی پارٹی ہو یا آر جے ڈی، بچ پائی اور مضبوط بن کر ابھری۔
ان انتخابات میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی سیاست میں قدرے بہتری آئی ہے- گزشتہ انتخابات میں بائیں بازو کی جماعتوں کے امیدوار 5 سیٹوں پر جیتے تھے- اس بار سی پی آئی 4 مارکسسٹ – سی پی آئی 2 – اور سی پی آئی ایم ایل 2 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں- تاہم کیرالہ اور بنگال میں سی پی آئی اور سی پی آئی مارکسسٹ کے لئے نتائج مایوس کن رہے جہان پر کئ دہائیوں تک ان کی حکومتیں رہی ہیں
اس ابتدائی تجزئے کے بعد اگلی قسط میں ہندوستان کے اندر اور باہر ان انتاخابات کے کیا اثرات ظاہر ہونگے اس پر بات کریں گے
Prof.Ameer Hamza Virk
Secretary Education
Awami Workers Party,Pakistan.