امریکہ کو مطلوب اور کیوبا میں دہائیوں سے جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والی امریکی انقلابی جواین ڈیبرا ڈیسامارڈ عرف اساتا شکور 78 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں.
“(ابتداء میں) میں کمیونزم کے خلاف نہیں تھی لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ میں اس کے حق میں تھی۔ شروع میں میں نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا، جیسے یہ کسی گورے آدمی کی گھڑی ہوئی سازش ہو۔ لیکن جب میں نے افریقی انقلابیوں کی تحریریں پڑھیں اور افریقی آزادی کی تحریکوں کا مطالعہ کیا، تو مجھ پر حقیقت کھلی۔ افریقہ کے انقلابی سمجھتے تھے کہ افریقی آزادی کا سوال صرف نسل کا سوال نہیں ہے۔ خواہ وہ گورے نوآبادیاتی حکمرانوں سے نجات بھی حاصل کر لیں، لیکن اگر سرمایہ دارانہ معاشی ڈھانچے سے نجات نہ پائیں تو گورے نوآبادیاتی حکمرانوں کی جگہ کالے نوآبادیاتی حکمران آ جائیں گے۔ افریقہ میں کوئی ایک بھی آزادی کی تحریک ایسی نہ تھی جو سوشلزم کے لیے نہ لڑ رہی ہو۔ اصل بات ایک سادہ مساوات میں سمٹتی تھی: کوئی بھی چیز جو قدر رکھتی ہے—وہ بنانے والے، کان کنی کرنے والے، کاشت کرنے والے، پیداوار کرنے والے اور اس کو قابلِ استعمال بنانے والے محنت کش ہوتے ہیں۔ تو پھر محنت کشوں کو اجتماعی طور پر اس دولت کا مالک کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ اپنے وسائل کے مالک اور مختار وہی کیوں نہ ہوں؟ سرمایہ داری کا مطلب یہ تھا کہ دولت چند امیر سرمایہ داروں کے قبضے میں ہو، جبکہ سوشلسٹ نظام میں دولت ان کے قبضے میں ہو جو اسے پیدا کرتے ہیں۔ میں اکثر (سیاہ فام) بہنوں بھائیوں سے سخت بحث میں پڑ جاتی تھی جو کہتے تھے کہ سیاہ فام عوام پر ظلم صرف نسل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ میں کہتی تھی کہ جابر صرف گورے ہی نہیں، کالے بھی ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو کچھ کالے لوگ نِکسن، ریگن یا دوسرے قدامت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں۔ کالے دولت مند ہمیشہ انہی امیدواروں کو ترجیح دیتے رہے ہیں جن سے انہیں اپنے مالی مفادات کے تحفظ کی امید ہوتی تھی۔ میری نظر میں یہ سمجھنے کے لیے زیادہ دماغ نہیں چاہیے تھا کہ سیاہ فام عوام پر جبر نسل کی بنیاد پر بھی ہے اور طبقے کی بنیاد پر بھی—ہم غریب بھی ہیں اور سیاہ فام بھی۔[اپنی زندگی کے پہلے دور میں] جب کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کمیونزم کیا ہے، تو میں نے جواب دینے کے لیے منہ کھولا، مگر فوراً ہی احساس ہوا کہ مجھے اس کی ذرا بھی سمجھ نہیں۔ میرے ذہن میں کمیونسٹ کی تصویر بس ایک کارٹون سے بنی تھی—ایک جاسوس، جس نے سیاہ لمبا کوٹ اور سیاہ ٹوپی پہن رکھی ہو اور کونے کھدروں میں چھپتا پھر رہا ہو…وہ دن میں کبھی نہیں بھولی۔ ہمیں بچپن ہی سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ کمیونسٹوں کے خلاف رہو، حالانکہ ہم میں سے زیادہ تر کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کمیونزم ہے کیا۔ صرف بے وقوف ہی دوسروں کو یہ فیصلہ کرنے دیتا ہے کہ اس کا دشمن کون ہے۔ زندگی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہی ہے: ہمیشہ خود طے کرو کہ تمہارے دشمن کون ہیں، اور کبھی اپنے دشمنوں کو یہ حق نہ دو کہ وہ تمہارے لیے تمہارے دشمن چنیں۔”
اساتا شکور, خودنوشت، 1987۔