Leave a Comment / International, News, Politics / By left
سامراج اور سرمایہ داری جنگیں پیدا کرتے ہیں سوشلزم امن کا پیامبر ہے
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، یا پی ایل او پہلی بار 1964 میں قاہرہ، مصر میں ایک سربراہی اجلاس کے دوران قائم کی گئی تھی۔ تنظیم کے ابتدائی اہداف میں مختلف عرب گروہوں کو متحد کرنا اور اسرائیل میں ایک آزاد فلسطین کی تشکیل کرنا تھا۔ یاسر عرفات ایک بڑا لیڈر تھا اس کی قیادت میں پی ایل او میں شامل بہت سے گروپ متحد تھےلیکن یاسر عرفات کی وفات کے بعد جو قیادت کا خلاء پیدا ہوا وہ آج تک پر نہی ہو سکا- اور فلسطینی گروپوں میں اختلافات نمایاں ہو کر سامنے انے لگے-جس سے ان کی تحریک آزادی کمزور ہوئی،،اسرائیل کو تقویت ملی اور عرب ملکوں کی حمائیت بھی کم ہو گئی- سوویٹ یونین کے خاتمے کے بعد جب وہاں سوشلزم نہ رہا اور دنیا دو قطبی سے یک قطبی ہو گئی تو امریکی اور دیگر سامراجی ممالک مشرق وسطی پر چڑھ دوڑے اور کئی ایک اسلامی ملکون کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جن مین عراق-لیبیا-فلسطین-شام –یمن وغیرہ شامل ہیں-پھر وقت نے کروٹ لی اور روس ایک سرمایہ دار ملک کے طور پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے آگے بڑھا اور دوسری طرف چین سوشلزم کا جھنڈا بلند کئے ہوئے تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں کی معاشی ترقی کے لئے کئ منصوبے اور پراجیکٹ لے کر امریکہ کے سامنے ا کھڑا ہوا ہے
چین کے ان منصوبوں مین سب سے برا منصوبہ دنیا میں امن قایم کرنا اورغریب ملکوں اور قومون کو عالمی سامراج کی معاشی غلامی سے آزاد کروانا ہے –عوامی جمہوریہ چیں امن کا پرچم لیکر مسلمان ملکوں اور مشرق وسطی میں پہنچا تو امریکی سامراج کی لگائی ہوئی آگ پر پانی ڈالنا شروع کیا اور ایران اور عرب ملکوں کی صدیوں پر محیط اختلافات کو ختم کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور سعودی عرب اور ایران میں صلح کروا دی- اب چین نے امن کا ایک اور چھکا مارا ہے اور فلسطینی تنظیموں کے اختلافات ختم کروا کر ان کے درمیان ایک معائدہ کروا دیا ہے تا کہ وہ اپنی آزادی کی جدوجہد کو منظم طور پر جاری رکھ سکین اور اسرائیل کے ظلم و جبر کا مقبلہ کر سکیں
اس سلسلے میں چین کی میزبانی اور قیادت میں بیجنگ میں 21 سے 23 جولائی تک فلسطینیوں کے مختلف گروہوں کے درمیان مذاکراتی عمل جاری رہا اور آخری روز یعنی منگل کو فریقین نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔چین کے سرکاری ٹی وی ‘سی جی ٹی این’ کے مطابق بیجنگ میں ہونے والے مذاکراتی عمل میں فلسطینیوں کے 14 دھڑوں نے شرکت کی جن میں ایک دوسرے کے حریف حماس اور الفتح کے رہنما بھی شریک تھے۔حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق اور الفتح گروپ کے رہنما محمد ال علولی سمیت دیگر 12 فلسطینی دھڑوں کے نمائندوں نے مذاکراتی عمل میں شرکت کی۔
چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ فلسطینی تنظیموں نے غزہ جنگ کے بعد عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔حماس کے رہنما نے چینی وزیرِ خارجہ اور فلسطینی تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ ” آج ہم نے قومی اتحاد کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں اسے ہم اتحاد کے سفر کو مکمل کرنے کا راستہ کہہ سکتے ہیں “
انہوں نے کہا کہ ہم قومی اتحاد کے لیے پرعزم ہیں اور اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔معاہدے پر دستخط کی تقریب کے بعد چینی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ مصالحت فلسطینی دھڑوں کا اندرونی معاملہ ہے لیکن بین الاقوامی تعاون کے بغیر مصالحت کے فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ چینی وزیرِ خارجہ کے مطابق منگل کو ہونے والے مذاکراتی عمل میں مصر، الجیریا اور روس کے سفیر بھی موجود تھے۔وانگ ژی کے مطابق چین مشرقِ وسطیٰ میں استحکام اور امن کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے غزہ میں جامع اور طویل المدت جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا۔
حماس اور الفتح کے رہنما رواں برس اپریل میں بھی چین میں اکٹھے ہوئے تھے اور فریقین نے 17 سال سے جاری اختلاف کے خاتمے اور اعتماد کی بحالی کے لیے مذاکرات کیے تھے۔حماس اور الفتح کئی سالوں سے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں دھڑوں کے درمیان کئی خون ریز تصادم بھی ہوئے جب کہ غزہ سے الفتح کی بے دخلی اور 2006 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد حماس نے غزہ میں اپنی خودساختہ حکومت قائم کر لی تھی جب کہ الفتح مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک حصے پر حکومت کر رہی ہے۔