قسط نمبر- 2
پروفیسر امیر حمزہ ورک
بھارت میں عام انتخابات کے بعد مودی نے وزیر اعظم کا حلف لے لیا ہے-کابینہ بھی بن گئی ہے ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی کابین ہے جس میں ایک بھی مسلمان وزیر نہی ہے-جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہی ہے کہ مودی حکومت کا مسلمانوں کے بارے میں کیا رویہ رہا ہے اور آئیندہ کیا ہو گا- لیکن بہت تھوڑے مارجن سے جیتنے والی اور اپنے اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی بی جے پی حکومت کو اب پہلے سے زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا-بھارتی پارلیمنمٹ لوک سبھا کے اندر ڈھائی سو کے قریب حزب مخالف کے اراکین مودی کی پالیسیون کے بخرے ادھیڑ کر رکھ دیں گے کیونکہ اب مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے زوال کا زمانہ شروع ہو گیا ہےمسلمان دشمنی اور پاکستان دشمنی کا نعرہ جو شلنا تھا چل چکا-ان ا نتخابات کو ہندوستان کے عوام نے بہت سنجیدہ لیا ہے اور بھارت کے آئین –جمہوریت اور سیوکولرازم کو لاحق خطرات کو عوام بھانپ گئے ہیں اور پھر سوا ارب کی آبادی میں مسائیل کے انبار کا ایک پہاڑ مودی حکومت کے سر پر ہے۔جس میں غربت،مہنگائی،بےروزگاری،افراط زر-کرپشن،ان پڑھتا یعنی جہالت-بنیادی سفائی کے نظام کی عدم دستیابی-صھت کی سہولیات کی عدم فراہمی،بڑھتا ہوا پولیشن،عورتوں اور اقلیتوں کو عدم تحفظ کا سامنا-ذات پات کا خوفناک نظام،چائیلڈ لیبر، مزہبی جھگڑے اور آبادی کا بڑھتا ہوا جن شامل ہیں۔۔۔
آگے بڑھنے سے پہلے دو چیزوں کی وضاحت ضروری ہے-پاکستان میں کچھ خوش فہم حضرات ہندوستان کو ترقی یافتہ ریاست سمجھتے ہیں ان میں اکثریت لبرل عناصر کی ہے جن کو پاکستان کی کوئی بھی چیز اچھی نہی لگتی دوسرے وہ مزہبی سیاسی عناصر جو پاکستان بننے کے خلاف تھے لیکن سیکولرازم کو کفر کا درجہ دیتے ہیں ان دونوں اشوز کی وضاحت کے بعد مودی حکومت اس خطہ جنوبی ایشیا کے لئے اگلے پانچ سال کیسے گزارے گی اس پر بات کریں گے۔
1-ہندوستان کیسی ریاست ہے؟ ریاست ایک طبقاتی تنظیم اور ادارہ ہوتی ہے-جس طبقے کی ریاست ہو (جاگیردار،سرمایہ دار یا مزدور کسان) اسی طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے ریاستی مشینری سرگرم ہوتی ہے اور اگر ریاست امیر ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان طبقوں کے پاس دولت ہے جن کی یہ ریاست ہے-سرمایہ دار ریاستون میں دولت سرمایہداروں کے پاس ہی جمع ہو گی عوام کے پاس نہی-
ہندوستان ایک پیچیدہ ملک ہے، متحرک تضادات کی سرزمین ہے۔ ترقی پذیر معیشت اور تیزی سے بڑھتے ہوئے ٹیک سیکٹر کے ساتھ، ہندوستان کو اکثر ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پھر بھی، چمکتی ہوئی فلک بوس عمارتوں اور ہلچل مچانے والے ٹیک ہب کے نیچے ایک تلخ حقیقت ہے- وسیع پیمانے پر غربت۔ہندوستان وسائل کے ایک وسیع ذخیرے اور نوجوان، باصلاحیت افرادی قوت پر فخر کرتا ہے۔ یہ ملک ایک بڑا زرعی پیدا وارکرنے والا، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں رہنما، اور جدت طرازی کا مرکز ہے۔ اس کی جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) دنیا کا پانچواں بڑا ہے، جو اس کی معیشت کے مثبت پہلو کو ظاہر کرتے ہیں تاہم، اس اقتصادی خوشحالی کو یکساں طور پر تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔ کروڑوں ہندوستانی اب بھی غربت کا شکار ہیں، خوراک، رہائش اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات کو برداشت کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
اندیا کے موجودہ الیکشن آئین –جمہوریت اور خاص کر سیکولرازم کو لاحق خطرات پر اپوزیشن نے لڑا اور عوام نے سیکولرازم کی پزیرائی کی-سیکولرازم خاص کر مسلمانو ںکی ضرورت ہے اور مسلمان علماء اور سیاستدان سبھی مودی کی ہندواتا سیاست اور سیکولر مخالف سیاست سےبہت پریشان تھے اور انتہا پسند ہندوں نے جس طرح گزشتہ دس سالوں سے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اس میں مودی حکومت کی سیکولر ؐخالف پالیسیوں کا دخل تھا-
سیکولرازم کیا ہے؟ سیکولرازم انگریزی زبان کا لفظ ہے اور ڈکشنری میں سیکولراز کی تعریف یوں لکھی ہوئی ہے-
The principle of separation of the state from religious institutions، “he believes that secularism means no discrimination against anybody in the name of religion”.
یعنی ریاست کا مزہبی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق نہی اور کسی بھی شخص کے خلاف مزہب کے نام پر نفرت آمیز رویہ نہ رکھنا سیکولرازم ہے”
اگرچہ اس تصور کی خود گہری تاریخی جڑیں ہیں، لیکن سیکولرازم کی اصطلاح خود صرف 19ویں صدی کی ہے، جب اسے برطانوی مصلح جارج جیکب ہولوک نے وضع کیا تھا۔
سیکولرازم ایک سوچ،رویے اور طرز فکر کا نام ہے جس کا مطلب عام زبان میں یہ ہے کہ “تم میرے مزہب، فرقہ،سوچ،رہنے سہنے کا کا انداز،کھانے پینے کے طور طریقیے کو برا نہ کہو اور میں تمہارے ان معمولات میں دخل اندازی نہی کروں گا” اور ریاست کے لئے لازم ہے کہ وہ اس عدم مداخلت کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرے –اور حود بھی کسی ایک طرز فکر کی حمائیت اور دوسرے کی مخالفت سے باز رہے”-تو اس رویے سے ریاست میں امن،بھائی چارہ، محبت و یگانت،حب الوطنی اور خشحالی آئے گی- سیکولرازم اگر کسی ایک جگہ یا ریاست کے لئے اچھا ہے تو دوسری جگہ،ریاست یا علاقے کے لئے کیسے برا ہو جاتا ہے؟
یہی المیہ ہم پاکستانیوں کا ہے-ہم بھی مودی بھارتیہ جنتا پارٹی،شیو سینا اور انتہا پسند ہندؤں کی طرح سیکولر ازم کی ؐحالفت کرتے ہیں-ہم ہر اچھی چیز کو مغربی فکر کہ کر رد کرنے کے عادی ہیں یہ الگ بات کہ مغرب کی ہر چیز ہی ہم استعمال کرتے ہیں ہم خود تو دسپرین اور سوئی تک نہی بنا پائے-لیکن ہندوستان کے مسلمانوں اور خاص کر وہاں کے علماء نے سیکولرازم کے حق ہندوستان کی سیکولر اور جمہوری سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیکر نہ صرف ہندوستاں کے 25 کروڑ مسلمانوں کا مستقبل محفوظ کیا ہے بلکہ مودی حکومت اور انتہاء پسند ہندو تنظیموں اور مزہبی جنونیوں کا بھی راستہ روکا ہے-
ہندوستان کے چھ سو چالیس ضلعوں میں سے پینتیس میں کم از کم تیس فیصد ووٹرز مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ آسام، مغربی بنگال اور کیرالہ کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔ ساتھ ساتھ اتر پردیش، آندھرا پردیش، بہار اور مہاراشٹر میں بھی مسلمان ہونے والے انتخابات میں کلیدی رول ادا کر تے ہیں – اور ہندوستان کے تمام مکتبہ فکر کے علماء نے خاص کر جمعیت علماء ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ “وہ سیکولرازم کے دشمن اور گنگا جمنی تہذیب کو آگ لگانے والی طاقتوں کے خلاف ووٹ دیں”۔ مولانا ارشد مدنی نے نریندر مودی کو سیکولرازم کے لئے خطرہ’ قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے مودی کے مخالفوں کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔
اندرونی طور پر مودی حکومت کو دیگر سماجی مسائل کے سامنے کے ساتھ ساتھ کسانوں کے زبردست احتجاج جیسی تحریکیوں کا سامنا کرنا پڑے گا-
کیونکہ مودی حکومت کم تعداد کے ساتھ واپس آئی ہے، کسانوں کو حوصلہ ملے گا اور وہ اپنے مطالبات کی تجدید کر سکتے ہیں اور مزید عزم کے ساتھ اپنی تحریک کوجاری رکھیں گے-خاص کر ہریانہ اور پنجاب کے کسان جس طرح منظم ہو کر جدوجہد کر رہے ہیں اس کی مثال طبقاتی تحریکوں میں کم ہی ملتی ہے-نئی مودی حکومت چونکہ اتحادیوں پر منحصر ہے اور اپوزیشن مضبوط ہو گئی ہے، اس لیے اگلی انتظامیہ کے پاس کسی بھی عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے اس قسم کی طاقت نہیں ہو گی جو ماضی کی یا گزشتہ دس سال مودی حکومت کو حاصل رہی ہے 2024 کے انتخابات کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ نئی حکومت اپوزیشن کے ساتھ زیادہ مشغول ہونے پر مجبور ہو جائے گی۔ہندوستان کی سیاست میں اتر پردیش کو وہی حیثیت حاصل ہے جو ُپاکستان میں پنجاب کو حاصل ہے اس صوبے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی الیکشن میں اچھی کارکردگی سامنے نہ آنے سے مودی کی حیثیت اور کمزور ہو گئی ہے-
خطے پر اثرات
ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ہندوستان اور پاکستان، 1947 میں برطانوی راج کی ہنگامہ خیز تقسیم سے پیدا ہونے والے جنوبی ایشیائی پڑوسی، ایک پیچیدہ تعلقات کا اشتراک رکھتے ہیں۔ حل نہ ہونے والا مسئلہ کشمیر ایک طویل سایہ رکھتا ہے۔ ہر قوم دوسرے کو ایک وجودی خطرے کے طور پر دیکھتی ہے، جس کی وجہ سے عسکریت پسندی ہوتی ہے اور وسائل کو ترقی سے ہٹانا پڑتا ہے۔ دونوں ممالک کی سیاسی جماعتیں حمایت حاصل کرنے کے لیے اکثر قوم پرستی اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا استعمال کرتی ہیں۔ سیاسی کشمکش کے باوجود، دو طرفہ تجارت موجود ہے، اگرچہ اس کی صلاحیت سے بہت کم ہے۔ ایک ملک کی اقتصادی پالیسیاں دوسرے پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، بھارت میں سست روی پاکستانی برآمدات کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں عدم استحکام علاقائی تجارتی راہداریوں میں خلل ڈال سکتا ہے۔
دونو ں ممالک کومشترکہ چیلنجز درپیش ہیں جن میں غربت، بے روزگاری، اور بنیادی ڈھانچے کی کمی جیسے معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان مسائل پر تعاون دونوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ موجودہ الیکشن کے بعد بھی اور مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے اقتصادی اور سیاسی تعلقات کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ممکنہ تعاون کے شعبوں میں تعاون سے دونوں ملکون کی معیشتوں کو فائدہ پہنچا یا جا سکتا ہے- میری رائے میں دونوں ملکون کی ایسٹیبلشمنت اور مودی حکومت آپس کے تعلقات کی بہتری کے خلاف ہے ٹاہم پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کا روز اول سے یہ ایجنڈا رہا ہے کہ ہندستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر کئے جائیں-کیو نکہ دونوں ملکوں میں باہمی تجارت کے علاوہ انرجی گرڈ جیسے علاقائی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر تعاون باہمی طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اور لوگوں کے درمیان تبادلہ افہام و تفہیم اور ہمدردی کو فروغ دے سکتا ہے۔
دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان دشمنی ان کے سیاسی گفتگو پر حاوی ہے۔ ہر ملک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جس کی وجہ سے مسلسل فوجی تیاری ہوتی ہے اور وسائل کی تقسیم پر اثر پڑتا ہے۔ سرحد پر کشیدگی اور تاریخی تنازعات ملکی سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بزدلانہ بیان بازی ہوتی ہے۔
ہندوستان اور ُاکستان کے درمیان تقسیم زیادہ تر مذہبی شناخت پر مبنی تھی۔ ایک اسلامی ریاست کے طور پر پاکستان کا خود کا تصور اس کے سیاسی موقف کو تشکیل دیتا ہے، جب کہ ہندوستان کی اپنی مسلم آبادی کو یکجا کرنے کی جدوجہد اس کی داخلی سیاست کو متاثر کرتی ہے۔ دونوں ممالک کی سیاسی جماعتیں حمایت حاصل کرنے کے لیے اکثر قوم پرستی اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا استعمال کرتی ہیں۔
سیاسی تناؤ کے باوجود، ہندوستان اور پاکستان کا قدرتی اقتصادی رشتہ ہے۔ جغرافیائی قربت اور ثقافتی مماثلت ایک اہم تجارتی صلاحیت پیش کرتے ہیں۔ تاہم، سیاسی عدم اعتماد اور حل طلب مسائل اقتصادی تعاون میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ دریائے سندھ کا نظام، جو دونوں ممالک میں زراعت کے لیے اہم ہے، کشیدگی کا باعث ہے۔ پانی کی تقسیم کے معاہدے موجود ہیں، لیکن سیاسی تنازعات پانی کے بہاؤ میں خلل ڈال سکتے ہیں، جس سے سرحد کے دونوں طرف زرعی پیداوار اور معاش پر اثر پڑتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعاون جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے لیے اہم ہے۔ تاہم، سیاسی تناؤ اکثر علاقائی انضمام کے اقدامات جیسے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون (سارک) کی کوششوں کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔
آگے بڑھنے کا راستہ
شکوک و شبہات کے اس چکر سے آزاد ہونا دونوں ممالک کے لیے بہت ضروری ہے۔ بیک چینل ڈپلومیسی، عوام سے عوام کا رابطہ، اور اعتماد سازی کے اقدامات اعتماد اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔ بنیادی مسائل کو حل کرنا: اقتصادی اور سیاسی تعاون کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے کشمیر اور پانی کی تقسیم جیسے بنیادی مسائل کو حل کرنا بہت ضروری ہے۔ مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کریں، دونوں ممالک انسداد دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی اور توانائی کی حفاظت جیسے شعبوں میں مشترکہ مفادات رکھتے ہیں۔ ان شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے سے وسیع تر تعاون کی بنیاد بن سکتی ہے۔
نتیجہ
ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات مسابقت اور باہمی انحصار کے درمیان ایک پیچیدہ رقص ہے۔ جب کہ سیاسی تناؤ چیلنجز کا باعث بنتا ہے، معاشی حقائق کچھ سطح کے تعاون کی ضرورت کرتے ہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے، دونوں ممالک کو مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے اور باہمی فائدے کے لیے اقتصادی تعلقات کا فائدہ اٹھانا ہوگا۔ تبھی وہ ماضی کے سائے سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور اپنے لوگوں کے لیے مزید خوشحال مستقبل بنا سکتے ہیں۔—–لیکن تعلقات مین بہتری کت تمام آپشن بھارتی برسر اقتدار ٹولے کے پاس ہیں۔۔۔پاکستان کئی بار تعلقات میں بہتری کا اظہار کر چکا ہے لیکن بات آگے نہی بڑھ پا رہی کبھی ایک ملک کی استیبلشمنت تو کبھی دوسرے ملک کے طاقتور حلقے امن،دوستی،باہمی تجارت کے راستے بند کر دیتے ہیں—تعلقات کی بہتری میں عوام کا فائیدہ ہی فائیدہ ہے۔۔اگر ہندوستان کو 25 کروڑ کی منڈی ملے گی تو پاکستان کو سوا ارب کی منڈی ملے گی اور تعلقات میں بہتری سے دونوں ملکوں کے غیر ترقیاتی اخراجات کم ہونگے اور وہ وسائیل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکتے ہیں۔۔۔ بڑا ملک ہونے کے ناطے اب بال ہندوستان اور مودی کی کورٹ میں ہے کہ وہ ایک زمہدار ریاست ہونے کاثبوت دے اور خطے مین امن،دوستی اور باہمی تجارت کا ایک نیا دور شروع کرے۔۔
Prof.Ameer Hamza Virk
Secretary Education
Awami Workers Party,Pakistan.