ہیلتھ ورکرز کا پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا

تحریر:اظہر علی

گرینڈ ہیلتھ الائنس کے تحت 7اپریل سے پنجاب اسمبلی لاہور کے سامنے محکمہ صحت کے ورکرز کا بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سینٹر کی نجکاری کیخلاف دھرناتین دن سے جاری ہے۔ اس میں پنجاب بھرسے ڈاکٹر، پیرامیڈیکل سٹاف، نرسز اوردیگر محکمہ صحت سے تعلق رکھنے والے ورکرز شریک ہیں۔دھرنے کے شرکاء کے مطابق ان کو افسران مختلف ہتکھنڈوں کے ذریعے ہراساں کررہے ہیں اور نوکریوں سے نکانے کی دھمکیاں بھی دئے رہے ہیں۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس نے 25مارچ کے احتجاج میں اعلان کیا تھا کہ اگرپنجاب حکومت نے محکمہ صحت کی نجکاری کی پالیسی کو ختم نہیں کیا توپھر 7 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا ہوگا۔اس لیے 7اپریل کو پنجاب اسمبلی کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں ورکرز پنجاب بھر سے پہنچ گے۔یہ واضح ہے کہ ہیلتھ ورکرز تمام تر دھمکیوں کے باوجود اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
نیولبرل حکومت کی اس پالیسی کے تحت ہزاروں ملازمین کو آؤٹ سورسنگ کے ذریعے جبری طور پر نکالا جا رہا ہے۔ اس لیے یہ ہیلتھ ورکرز احتجاج کررہے ہیں۔پنجاب حکومت یہ سب آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے کررہی ہے لیکن یہ ویسے بھی اس حکومت کی ماضی کی تاریخ ہے کہ یہ نجکاری کی پالیسی کو جارحانہ طریقہ سے نافذ کرتی ہے تاکہ سرمایہ کے منافع اور لوٹ مار کے مزید مواقع پیدا کیئے جائیں،محکمہ صحت اور دیگر اداروں کی نجکاری اسی مقصد کے لیے کی جاری ہے جس میں ہزاروں ہیلتھ ورکرز کی نوکریاں خطرے میں ہیں اور جن کی نوکریاں بچ بھی جائیں گئیں ان کو انتہائی برے حالات میں کام پر مجبور کیا جائے گا۔
پنجاب حکومت نے جناح ہسپتال لاہور کی آؤٹ سورس کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے اس کے علاوہ ہیلتھ ٹیچنگ سنٹراور میوہسپتال کی بھی نجکاری کی جا رہی ہے اوریہ تمام بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سینٹر کی آوٹ سورس کا منصوبہ رکھتی ہے۔یہ پہلے ہی 150بنیادی مراکز صحت کومریم نواز ہیلتھ کلینکس کے طور پر آؤٹ سورس کرچکی ہے اور اگلے مرحلے میں 1200کو آوٹ سورس کررہی ہے۔اس سب کی وجہ سے لاکھوں ہیلتھ ورکرز کی نوکریاں ختم ہوسکتی ہیں۔جس کی وجہ سے پہلے سے ہی انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنے والے ہیلتھ ورکرز کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
ہیلتھ ورکرز کے دھرنے کی دیگر محکموں کے ورکرز میں بھی حمایت موجود ہے کیونکہ وہ اس نیولبرل حکومت کی پالیسیوں سے تنگ اور باربار اس کے خلاف احتجاج میں بھی آرہے ہیں۔اسی وجہ سے آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس پنجاب کی قیادت کے علاوہ اس میں پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن (پپلا)،آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن (ایپکا) اور پنجاب ٹیچرز یونین کی قیادت اس دھرنے سے یکجہتی کے لیے اس میں شریک ہوئے۔اس کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں بھی شریک ہورہی ہیں۔
اگیگا کی قیادت کی طرف سے اس احتجاجی دھرنے میں شرکت اوریکجہتی بہت اہم ہے۔اب اگیگا اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کو حکومتی حملوں کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ حکمران طبقہ کے بڑے حملے کا مقابلہ کیا جاسکے۔اس لیے دھرنا ایک اہم قدم ہے لیکن اگر ہم نے حکومتی حملوں کو شکست دینی ہے تو ان کو یوٹیلیٹی سٹورز، پاکستان پوسٹ، پی آئی اے، واپڈا، ریلوےاوراس کے علاوہ نجی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں اور کسان تحریکوں کو بھی دھرنے میں شرکت کی دعوت دینی چاہیے ہے۔
اس وقت پنجاب سمیت ملک بھر میں آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے نوکریوں کے خاتمے،پنشن پر حملوں،اور نجکاری کے خلاف تحرک موجود ہے۔اس کے علاوہ بھی آئی ایم ایف کے دباؤ پر کٹوتیوں کے خلاف اور سامراجی و قومی سرمایہ کے مفاد میں حکومت جن پالیسییوں پر عمل پیراہے اس کی وجہ سندھ،کشمیر،گلگت بلتستان،پختونخواہ اور بلوچستان میں توانا تحریکیں ابھری ہیں۔اس صورتحال میں معاشی حملوں اور جمہوری پابندیوں کے خلاف لڑنے کے لیے ایک ملک گیر تحریک کی ضرورت ہے۔جس میں ہیلتھ ورکرز کا دھرنا اور دیگر تحریکیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔یہ مل کرہی اس نیولبرل حکومت کے حملوں کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔
حکومتی حملے کو روکنے کے لیے ہیلتھ ورکرز کا صرف دھرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کو کام کی جگہ پر منظم ہونا ہوگا اور وہاں ایکشن کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گئیں جہاں جمہوری بحث کے ذریعے جدوجہد کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے جس میں ہڑتال سمیت سنٹرز اور ہسپتالوں کو ہیلتھ ورکرز کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہیے ہے۔لیکن اس سب میں ایکشن کمیٹی کو ہڑتالی کمیٹی کو منتخب کرنا ہوگا جو دیگر محکموں کے ورکرز سے مل کران سے حمایت حاصل کریں لیکن اس کے ساتھ ان کو کام کی جگہ پر کمیٹیوں کی تشکیل کی ترغیب دیں جس میں حکمران طبقہ کے حملوں کے خلاف مل کرجدوجہد کا لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکے۔ان کمیٹیوں کو ضلعی،صوبائی اور وفاقی سطح پر منظم ہونا ہوگا اور ان کمیٹیوں کو بورژواء سیاست سے آزادانہ طور پر کام کرنا ہوگا اسی طرح ایک عام ہڑتال کے ذریعے ہی ہم حکمران طبقہ کے حملوں کو شکست دئے سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہڑتال کو تب تک جاری رکھنا ہوگا جب تک حکومت کی نجکاری،نوکریوں کے خاتمے اور پنشن پر حملوں کی پالیسی کو شکست نہیں ہوجاتی ہے۔

Loading

Leave a Reply