21ویں صدی کی آخری رات،

گزشتہ رات 21 وی صدی میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے عزم و ہمت کے پیکر  اور عوامی مسائل کے لیے جدوجہد کرنے والے مزاحمت کار بابا جان ساتھی ظہور الہی کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف لائے۔

اس نشست میں گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی کے این ایس ایف کے مرکزی صدر مومن خان مومن بھی شریک تھے۔

پاکستان کی معلوم تاریخ میں یہ اعزاز صرف بابا جان کو جاتا ہے کہ جنہیں مجموعی طور پر متعدد مقدمات میں 100 سال کی سزا سنائی گئی۔

یہ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں نو سال تک جیل کاٹ چکے ہیں۔

چار جنوری 2010 کو  گوجال کے علاقے عطااباد میں لینڈ سلائیڈنگ  کے نتیجے میں متعدد دیہات زیر آب آے۔

بابا جان کا جرم یہ تھا کہ یہ زیر اب انے والے دیہات کے بچ جانے والے لوگوں کے لیے معاوضے کی مانگ کر رہے تھے۔

احتجاجی مظاہرین پر پولیس نے سیدھی فائرنگ کی جس سے  موقع پر باپ اور بیٹا ہلاک ہو گئے۔

اس وقت لالہ موسی سے تعلق رکھنے والا پیپلز پارٹی کا قائرہ یا کائرہ گلگت بلتستان کا گورنر تھا۔

  مرکز میں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھا۔

2015  کے انتخابات میں پہلی دفعہ بابا جان نے جیل سے ہی حصہ لیا۔

ہنزہ کے عوام نے  اپنے چندوں سے ان کی بھرپور انتخابی مہم چلائی سرکار اور دربار کے ایوانوں میں لرزہ طاری تھا۔

پاکستان کی نام نہاد جمہوری روایات کے مطابق ان کو چمک اور دمک کا استعمال کر کے معمولی مارجن سے ہرایا گیا

ان کے مقابلے پہ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار تھے۔ خاص طور پر ہنزہ کے راجہ کو جتوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔

محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے  حقیقی نمائندے بابا جان کو جب متعدد مقدمات  میں ملوث کیا گیا تو انہوں نے اٹھ ستمبر 2011 کو گلگت بلتستان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں گرفتاری دے دی تھی ۔

ستمبر 2020 میں گلگت بلتستان کے عوام کی طرف سے قائم کی گئی اسیران رہائی کمیٹی نے 10 دن کا دھرنا دیا۔

جس  کے نتیجے میں ریاست زبردست دباؤ کا شکار ہوئی اور پھر  اسیران رہائی کمیٹی اور سرکار کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں بابا جان اور ان کے 14 ساتھیوں کی رہائی بتدریج عمل میں لائی گئ۔

ان پر قائم کیے گئے مقدمات ابھی بھی موجود ہیں اور ان کا کیس گلگت بلتستان کی سب سے بڑی عدالت اپیلنٹ کورٹ میں چل رہا ہے۔ظہور الہی بتا رہے تھے کہ جب انسانی حقوق کی پاکستان کی سب سے بڑی اواز محترمہ عاصمہ جہانگیر مرحومہ ان کے کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے لاہور سے اتی تھیں تو جج صاحب بیمار ہو جاتے تھے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی رہنما اختر حسین بھی ان کے مقدمات کے لیے کراچی سے  تشریف لائے تھے۔

پاکستان کی نام نہاد تینوں بڑی پارٹیوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو کچلنے اور بابا جان کو جیل میں رکھنے پر اپنا گھنا کردار ادا کیا۔

ا

 افتادگان خاک کے اس نمائندے نے 16 سال کی عمر سے ہی اپنی سیاسی زندگی کا اغاز کیا۔

اور اج 45 سال کی عمر میں بھی ان کا حوصلہ تر و تازہ ہے۔

بابا جان کو اپنے عوام سے، اپنی دھرتی سے محبت کے جرم میں ان کے والد ک جیل یاترا کا دکھ بھی اٹھانا پڑا ۔

بابا جان گلگت اور بلتستان کے عوام کے لیے اس سال کے شروع سے ہی متعدد مظاہروں میں میں شامل رہے۔

اور ان کی تازہ ترین جدوجہد میں ایک نو عمر بیٹی فلک ناز کے اغوا کے خلاف اواز بلند کرنا اور نامزد ملزمان کی جلد گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔

اس موقع پر ان کی شریک حیات ہمت بی بی کو بھی میں سلام پیش کرتا ہوں جو کہ ان کی جیل یاترا کے دوران ہی سے شادی کے لیے جیل پہنچ گئیں ۔سپرٹنڈنٹ جیل نے پہلے نکاح کی اجازت دے دی تھی تاہم عین وقت پر اس نے انکار کر دیا۔

عاصمہ جہانگیر سے محبت اور خلوص کے اظہار کے لیے بابا جان نے اپنی بیٹی کا نام بھی عاصمہ رکھا ہے۔

خوشگوار  ازدواجی زندگی گزارنے والے بابا جان اپ دو بچوں کے والد بن چکے ہیں اور ان کی اہلیہ ایک سکول میں پڑھاتی ہیں۔

مجھے اس پر فخر ہے کہ تقریبا چار دہائیوں کے خود ساختہ جلاوطنی کے بعد میری پاکستان واپسی پر میرے پہلے سیاسی مہمان بابا جان تھے۔

Loading