نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان کی طلباء یونین بحالی پیدل لانگ مارچ مرکزی صدر ڈاکٹر جمیل بلوچ نائب صدر پرویز عارف جنرل سیکرٹری عامر حسین چانڈیو قاسم علی شاہ عزیز اللہ اور پاکستان انقلابی پارٹی کے سینٹرل سیکرٹری جنرل صابر علی حیدر کی زیر قیادت” جمبر کلاں پہنچ گیا جمبر میڈیا سے گفتگو کی
قانونِ قدرت ہے کہ کوئی شجر تب تک نہ توسایہ دے سکتا ہے نہ ثمر اگر اُس کی جڑیں مضبوط نہ ہوں۔ پاکستان میں عوامی جمہوریت کے نہ پنپ سکنے کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کا نہ ہونا ہے۔ تیسری دنیا کے چند ممالک کو چھوڑ کر دنیا بھر میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں طلبہ یونین کے باقاعدہ انتخابات نہ ہوتے ہوں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت کم از کم ایک بنیادی صورت میں موجود ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ طلبہ یونین ہی وہ سرخ و سبز گلستاں ہے، وہ نرسری ہے جہاں سے نہ صرف سیاسی و جمہوری قیادت اُبھرتی ہے بلکہ جس جگہ بھی طلبہ سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں، وہاں دیگر رفاہی کاموں کے لیئے ان مفاد پرستوں کی ضرورت نہیں رہ جاتی جو این جی اوز بنا کر اپنے چہرے پر مال و زر کے طمانچے کھاتے رہتے ہیں۔
ایک ترقی پسند اور روشن خیال سماج کے قیام کے لیئے اگر نوجوان طالبِ علموں کو ہی عضوِ معطل بنا کر رکھ دیا جائے تو ایک ایسا ہی سماج وجود میں آئے گا، جِس طرح کے سماج میں ہمارے اجداد زمین میں رینگتے کیڑوں کی مانںد یا تو اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں یا پہنچنے والے ہیں، جہاں ہماری آج کی نسل سیاسی بیگانگی سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر سماجی بے اعتنائی کا شکار ہو چکی ہے اور ہماری اگلی نسل تعلیمی اداروں میں فقط حصولِ روزگار کے لیئے جاتی ہے۔
اگر تعلیمی اداروں میں طالبات کو کوئی جنسی ہراسانی کا شِکار کرتا ہے تو باقی طلبہ و طالبات کو اس زیادتی کے خلاف کھڑے ہونے سے زیادہ اپنے اپنے گریڈ کی فکر لگی رہتی ہے۔ دور دراز سے آئے ہوئے پشتون، بلوچ اور سرائیکی کونسلز کے طلبہ کو جب ایک بنبیاد پرست سیاسی جماعت کی بغل بچہ طلبہ تنظیم کے مسلح غنڈہ گرد تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو بھی طلبہ و طالبات کے پاس ایسا کوئی پلیٹ فارم، کوئی ڈیسک یا کوئی ایسا دفتر موجود نہیں جہاں جا کر وہ اپنی فغاں بلند کر سکیں۔ ہر موجودہ و گذشتہ حکومت اپنے اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے لیئے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کر دیتی ہے، جس کے باعث نصاب مکمل طور پر غیر سائینسی اور بنیاد پرستی کا حامل ایک ایسا نصاب ہو جاتا ہے جِو ارتقاع کی اس منزل پر موجود دنیا سے کسی طور پر میل ہی نہیں کھاتا۔ لہٰذہ ہمارا آج کا طالبِ علم یا تو اپنے ہی ملک میں قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہونے کے باعث پچھاڑ دیا جاتا ہے اور اگر اعلیٰ تعلیم کے لیئے ملک سے باہر چلا جائے تو اس کو اپنی پوسٹ گریجویشن دوبارہ کرنی پڑتی ہے۔
بیسیئوں ایسے مضامین، جِن کے ماہرین کی ملک کو ضرورت ہے ان کے ڈیپارٹمنٹ ہی موجود نہیں اور جو ڈیپارٹمنٹ ہیں ان میں ماہرین موجود نہیں مگر ان طاقت اور توانائی سے بھرپور طالبِ علموں کے پاس ’’اطاعتِ اہلِ ستم‘‘ کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ منتخب شدہ طلبہ یونین ہی موجود نہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی اقامت گاہوں پر ’’اہلِ حِکم‘‘ کا قبضہ ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کو بھی پرائیویٹ ہاسٹلوں میں دھکے کھانے پڑ رہے ہیں۔ پہلی 12 سال کی تعلیم کو وسیع البنیاد رکھنے کی بجائے بچوں کی اپنے مفادات کے مُطابق ذہن سازی کی جا رہی ہے ۔۔۔۔ مگر کِسے شکائت کریں کہ اُن کی منتخب شدہ طلبہ یونین پر تو 9 فروری 1984 سے مسلسل پابندی ہے۔ تعلیمی اداروں تک رسائی کے لیئے یا ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے ضمن میں تعلیمی اداروں کی اپنی ہی بنائی ہوئی کمیٹیوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جو یا تو خود مجبور و محکوم ہیں یا انہی مزکورہ اہلِ حِکم و اہلِ ستم کی ساتھی۔ کوئی طلبہ یونین موجود ہی نہیں جو ان مظالم کے خلاف آواز اُٹھا سکے۔ تعلیمی اداروں کے گیٹوں پر مسلح اہل کاروں کی مِنت سماجت کر کے اگر طلبہ کے اہلِ خانہ کیمپسوں تک پہنچ بھی جائیں تو کلرک تشدد کرتے ہیں اور طلبہ کا کوئی نمائیندہ ان کے بچاؤ کے لیئے موجود نہیں ہوتا ۔۔۔!
مزید برآں، طلبہ یونین نہ ہونے کے باعث ’’طبقاتی نظامِ تعلیم‘‘ زینے کی طرح ایک طبقاتی سماج کو مستحکم کر ہے۔ مدارس سے پڑھے ہوئے ان طلبہ کو بھی سماج میں ایک دہشت گرد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جس نے کبھی بندوق اُٹھائی ہی نہیں۔ اگلے پائدان پر سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ ہیں جہاں آج کوئی اپنا بچہ بھیجنا ہی نہیں چاہتا، پھر گلی مُحلوں کے وہ نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں تعلیم و تدریس کے سِوا سب کُچھ ہے، پھر ذرا مہنگے تعلیمی ادارے جہاں ہمارے سماج کے لیئے ایک ’’معلق فرد‘‘ گھڑ دیا جاتا ہے، جس کے پاؤں کیچڑ میں اور سر آسمان پر ہوتا ہے اور آخر میں ان مقتدر طبقات کے مہنگے نجی تعلیمی ادارے جہاں داخلے کے لیئے بچوں کے اہلیت کے ٹیسٹ سے پہلے اُن کے والدین کا انٹرویو کر کے اُن کے بنک بیلینس کی ضمانت لی جاتی ہے۔ مگر یہ طبقاتی نِظامِ تعلیم جو طبقاتی سماج کی پرورش کر رہا ہے کیا اس کے تقابل میں طلبہ و طالبات کا کوئی منتخب ادراہ ہے یعنی طلبہ یونئینز؟ نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ اس فرسودہ نظامِ تعلیم کو دہایئوں سے پرورش دینے والے مقتدر طبقات کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے سوا کِسی سے کوئی دلچسپی نہیں، نہ سماج سے، نہ ملکی ترقی سے اور نہ اس ملک کے مستقبل سے۔
سندھ اسمبلی نے بھی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ۔ پاکستان کی ’’طلبہ یونین بحالی‘‘ تحریک کے باعث، جو 1984 کی ’’صد روزہ تحریک‘‘ ہی کی ایک توسیع ہے، سندھ اسمبلی سے طبہ یونین کی بحالی کا بل تو پاس کر دیا، اس سے قبل سینیٹ میں بھی طلبہ یونین بحالی کی قرارداد میاں رضا ربانی کی سربراہی میں پاس ہوئی، قومی اسمبلی میں بھی یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیرِ اعظم طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا ۔۔ مگر طلبہ یونین پر تاحال پابندی ہے۔
لہٰذا !نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان یکم فروری 2023 سے طلباء یونین بحالی کے ضمن میں درج ذیل مطالبات کےمنوانے کے لیے اوکاڑہ سے لاہور تک پیدل