عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صدر پروفیسر امیر حمزہ ورک اور پنجاب کے کسان سیکریٹری میاں امداد حسین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ موجودہ حکومت ایک طرف گماشتہ اور اجارہ دار سرمایہداروں کو فائیدہ پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہےتو دوسری طرف زراعت میں کارپوریٹ فارمنگ کی پالیسی اختیار کر کے درمیانے اور چھوٹے کاشتکاروں اور کسانوں کو برباد کر رہی ہے
عوامی ورکرز پارٹی کے راہنماؤں نے کہا کہ حکومت گندم، کپاس، گنے اور دیگر اہم فصلوں کے لیے کم سے کم سپورٹ پرائس(MSP) طے کرتی ہے، جو کسانوں کے پیداواری اخراجات (بجلی، کھاد، بیج) سے بھی کم ہوتی ہے۔
مثال کے طور ہر 2023-24 میں گندم کی سپورٹ پرائس 3,900 روپے فی من رکھی گئی، جبکہ کسانوں کا مطالبہ 5,000 روپے فی من تھا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسانوں کو منافع نہ ہونے کے برابر، اور ان کے قرضوں میں اضافہ ہوا۔
جبکہ بجلی اور ڈیزل کی بلند قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے ٹیرف میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس سے آبپاشی کا خرچہ بڑھ گیاہے۔
ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے نے ٹریکٹر اور مشینری کے اخراجات کو ناقابل برداشت بنا دیاہے
اور حکومت سرمایہ داروں ۔مڈل مینزاور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائیدہ پہنچا رہی جبکہ سبسڈیز ختم کرکے کسانوں کو “سزادے رہی ہے”۔

عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے راہنماؤں نے کہا کہ کھاد اور زہر کی مصنوعات کی قلت اور مہنگائی سے ہر کسان ہریشان
ہے۔ یوریا اور DAP کھاد کی مصنوعات کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے کسانوں کو مہنگے داموں کھاد خریدنی پڑتی ہے۔ لیکن حکومت کی اس بلیک مارکیٹنگ روکنے کے لئے کوئی پالیسی اور اقدامات نہی ہیں بلکہ حکومتی اداروں اور لوکل افسر شاہی کی ملی بھگت
کی وجہ سے جعلی زہریں بھی مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی پنجاب جو کہ مزدوروں۔۔کسانوں۔۔۔کھیت مزدوروں اور دیگر محنت کار عوام کی پارٹی ہےان تمام حکومتی پالیسیوں کو کسان دشمن قرار دے کر اس کی مزمت کرتی ہے۔۔
عوامی ورکرز پارٹی سمجھتی ہے کہ پنجاب حکومت شہزادوں کی حکومت ہے جنھیں کسانوں۔دیہی عوام اور زراعت کے مسائل سے کوئی سروکار نہی ہے وہ صرف بڑے جاگیرداروں کی نمائیندہ ہے
انھیں اس بات کا ادراک نہی ہے کہ دیگر مسائل کے علاوہ پنجاب کے اکثر علاقوں (خاص طور پر جنوبی پنجاب) میں نہری پانی کی غیر مساوی تقسیم، جس کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کو زمینی پانی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور پنجاب کے تین دریا ستلج۔راوی اور بیاس تو پہلے ہی1960ء پنجاب دشمن حکمرانوں نے ہندوستان کو فروخت کر دیے تھے۔۔اور نون لیگ کی حکومت کی پنجاب میں
آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے (نہروں، بیراجوں) کی بحالی پر کوئی توجہ نہی ہے۔۔انھوں نے مزید کہا کہ عوامی ورکرز پارٹی پنجاب سمجھتی ہے کہ آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت
حکومت نے زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات کی ہے، جس پر چھوٹے کسان احتجاج کر رہے ہیں۔
جبکہ بڑے زمینداراور جاگیردارحکومت میں ہونے اور افسر شاہی پر اثر رسوخ کی وجہ سے ٹیکس ادا نہیں کرتے، جبکہ چھوٹے کسانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی
پنجاب حکومت اور چینی مافیا کی ملی بھگت کی بھی مزمت کرتی یے۔۔۔حکومتی افراد اور ان کے رشتے داروں کی شوگر ملز ایسوسی ایشن ایک مافیا اور کارٹیل بن چکی ہےجو گنے کے کسانوں کا استحصال کرتی ہے۔
چینی ملوں کی جانب سے گنے کی قیمتوں میں ہیرا پھیری اور کسانوں کو ادائیگیوں میں تاخیر کر کے جرم کرتے ہیں اور سب سے بڑی کرپشن وہ “شوگرکین سیس فنڈ” میں کرتے ہیں جو کسانوں کے گنے سے کٹوتی کی جاتی ہے وہ اربوں۔کھربوں روپے جو کسانوں کا پیسہ ہوتا ہےاور پنجاب حکومت کے پاس جاناہوتا ہے جس سے فارم ٹو مارکیٹ سڑکیں بنتی ہیں یہ مل مالکان استعمال کرتے رہتے ہیں
حکومت چینی مافیا کے خلاف موثر کارروائی جان بوجھ کر نہی کر رہی ۔۔۔
لیہذا عوامی ورکرز پارٹی پنجاب مطالبہ کرتی ہے کہ 1-حکومت فصلوں کے لیے منافع بخش قیمتوں کی ضمانت دے ۔
2-بجلی، کھاد، اور ڈیزل پر سبسڈیز بحال کرے
3- پانی اور زرعی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرے۔
4- چھوٹے کسانوں کے قرضے معاف کرے