Urdu Archives - Asia Commune https://asiacommune.org/category/urdu/ Equality & Solidarity Mon, 03 Feb 2025 16:22:40 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.7.2 https://asiacommune.org/wp-content/uploads/2022/07/cropped-cropped-cropped-cropped-New_Logo_02-32x32.png Urdu Archives - Asia Commune https://asiacommune.org/category/urdu/ 32 32 پاکستان کا طبقاتی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم سماجی۔۔سیاسی۔معاشی۔ثقافتی پسماندگی اور معاشرتی تنگ نظری کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔۔۔ https://asiacommune.org/2025/02/03/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%d8%a7-%d8%b7%d8%a8%d9%82%d8%a7%d8%aa%db%8c-%d9%86%d8%b8%d8%a7%d9%85-%d8%aa%d8%b9%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%86%d8%b5%d8%a7%d8%a8-%d8%aa/ Mon, 03 Feb 2025 16:22:36 +0000 https://asiacommune.org/?p=8505 عوامی ورکرز پارٹی پنجاب انگریز کے زمانے سے رائج نوآبادیاتی و طبقاتی نظام تعلیمپاکستان کے مسائل کی جڑ سمجھا جاتا ہے ۔۔گزشتہ 77سال سے ہمارے…

The post پاکستان کا طبقاتی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم سماجی۔۔سیاسی۔معاشی۔ثقافتی پسماندگی اور معاشرتی تنگ نظری کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔۔۔ appeared first on Asia Commune.

]]>
عوامی ورکرز پارٹی پنجاب

انگریز کے زمانے سے رائج نوآبادیاتی و طبقاتی نظام تعلیم
پاکستان کے مسائل کی جڑ سمجھا جاتا ہے ۔۔گزشتہ 77سال سے ہمارے ہاں ایک دو نہیں چار پانچ قسم کے تعلیمی نظام رائج ہیں۔۔پاکستان کی حکمران پارٹیوں(ن لیگ۔۔پیپلزپارٹی۔۔پج ٹی آئی) کی ترجیحات میں غیر طبقاتی۔۔۔مساوی بنیادوں پر مبنی۔قومی مفادات سے ہم آہنگ۔۔ سائینسی بنیادوں پر مبنی تعلیم کا نظام نہی ہے بلکہ تعلیم ان کی ترجیع ہے ہی نہی۔حکمران طبقہ۔ بیوروکریسی۔۔اور امیر لوگ اپنے بچوں کو جدید اور مہنگے اداروں میں تعلیم دلوا کر اپنی جاں نشینی کے لئے تیار کرتے ہیں۔ جبکہ عام طبقے کے بچے سرکاری سکولوں میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر علم حاصل کرتے ہیں ۔
آئین پاکستان کے مطابق استحصال کی تمام تر شکلوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ہر شہری کے لئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، یعنی ہر شہری کے لیے تعلیم اور علاج کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس کا اطلاق پاکستان میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اس وقت بھی جو غیر معیاری سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں، حالیہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے انکا بھی سودا کیا جائے رہا ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی اس ملک میں تعلیم کے دو مختلف نظام موجود رہے ہیں۔ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے موجود تھے اور دوسری طرف نجی تعلیمی ادارے تھے جن میں دینی مدارس، مشنری سکول و کالج اور نجی ادارے موجود تھے۔ معاشی لبرلائزشن کی پالیسیوں کے نتیجے میں پہلے سے موجود طبقاتی نظام تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گیا۔ آج جہاں ہمیں ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی نظرآتی ہے وہیں دوسری طرف ملک کے ہر دوسرے گلی کوچے میں نجی تعلیمی اداروں خصوصاً سکولوں اور اکیڈمیوں کا جال نظر آتا ہے جو منہ ما نگی قیمت پر تعلیم کا کاروبار کرتے ہیںعوامی ورکرز پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ
1-طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کیا جائے ۔۔۔
2-پورے پاکستان میں یکساں نصاب تعلیم لاگو کیا جائے۔
3-نظام و نصاب تعلیم کی بنیاد بلا تفریق رنگ ونسل س مزہب تعلیم سب کے لئے کی بنیاد پر استوار کی جائے
4-تعلیم کو عام اور بامقصد بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے۔بالخصوص پنجاب میں مادری زبان کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اس لئے سب سے بڑے صوبے میں ابتدائی تعلیم پنجابی میں فراہم کی جائے۔۔
5ـ پرائمری۔ائی ٹی۔ٹیکنالوجی اور اعلی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر پر ٹیکنیکل ہائی سکول قائم کیا جائیں جن ہر طرح کی ٹیکنیکل تعلیم فراہم کرنے کا بندوبستی ہو
6-ریاست تعلیم کے بعد روزگار کی ضمانت دے۔طلبہ کی جمہوری،قومی تربیت کے لئے طلبہ یونینز بحال کی جائیں

Loading

The post پاکستان کا طبقاتی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم سماجی۔۔سیاسی۔معاشی۔ثقافتی پسماندگی اور معاشرتی تنگ نظری کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔۔۔ appeared first on Asia Commune.

]]>
8505
Why did Justin Trudeau resign? Indian Factor https://asiacommune.org/2025/01/10/why-did-justin-trudeau-resign-indian-factor/ Fri, 10 Jan 2025 16:27:07 +0000 https://asiacommune.org/?p=8429 The post Why did Justin Trudeau resign? Indian Factor appeared first on Asia Commune.

]]>

Loading

The post Why did Justin Trudeau resign? Indian Factor appeared first on Asia Commune.

]]>
8429
One thought on “Is Marx still relevant today?” https://asiacommune.org/2024/12/18/one-thought-on-is-marx-still-relevant-today/ Wed, 18 Dec 2024 15:59:58 +0000 https://asiacommune.org/?p=8359 Leave a Comment / Debate, International, Left Ideas, Marxism / Leninism, Politics / By left “ایک سوچ” کیا مارکس آج بھی متعلقہ ہے؟ One thought…

The post One thought on “Is Marx still relevant today?” appeared first on Asia Commune.

]]>
Leave a Comment / Debate, International, Left Ideas, Marxism / Leninism, Politics / By left

“ایک سوچ” کیا مارکس آج بھی متعلقہ ہے؟

One thought on “Is Marx still relevant today?”

سی  جی ٹی این کے کرنٹ افیئرز کے تبصرہ نگار ژانگ وان کے درج ذیل مضمون کا چینی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کی اکیڈمی آف مارکسزم نے  انگریزی میں ترجمہ کیا ہے  یہ متعدد چینی اور بین الاقوامی اسکالرز اور سیاسی شخصیات کے مشاہدات اور مظاہر پیش کرتا ہے، جس میں اکیڈمی  آف مارکسزم چائینا کے سربراہ ثنگ یانگ نے نوٹ کیا کہ، “اگرچہ مارکس نے کبھی چین کا دورہ نہیں کیا، لیکن اس کے نظریات اور جائزے بڑی حد تک حقیقت کے مطابق ہیں”۔ہم یہ مضمون آپ کی دلچسپی کے لئے اردو ترجمے کے ساتھ شائع کر رہے ہیں-

https://redsite.pk/(ایڈیٹر) حمزہ ورک

ڈیڑھ صدی سے زیادہ پہلے، کارل مارکس نے تصور کیا تھا کہ چین بالآخر جاگیرداری سے سوشلسٹ معاشرے میں تبدیل ہونے پر اہم سماجی اور معاشی بدحالی کا سامنا کرے گا۔ جاگیردارانہ نظام کے اندرونی تضادات، سرمایہ دارانہ قوتوں کے بیرونی دباؤ کے ساتھ مل کر، طبقاتی کشمکش کا باعث بنیں گے، جس کا نتیجہ بالآخر ایک انقلاب کی صورت میں نکلے گا، اس طرح ایک زیادہ منصفانہ سماجی نظام کی راہ ہموار ہوگی اور سوشلزم کے لیے اپنے مخصوص راستے کی تشکیل ہوگی-

مارکس نے چینی معاشرے کی ترقی اور اس کی مسلسل ترقی کی پیشین گوئی کیسے کی؟ چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کی اکیڈمی آف مارکسزم کےسربراہ

ژن ژیانگ  کے مطابق 1939 میں ماؤ زے تنگ نے بیان کیا کہ چین کی قومی حالت ایک نیم نوآبادیاتی اور نیم جاگیردارانہ معاشرہ  کی ہے۔ اس کے بعد چینیوں نے اس حالت کو سمجھنے کے لیے مارکسزم کے ساتھ سو سال گزارے۔ “اگرچہ مارکس نے کبھی چین کا دورہ نہیں کیا، لیکن ان کے خیالات اور جائزے بڑی حد تک چین کی حقیقت کے مطابق ہیں،” ژان نے مزید کہا کہ رشین اکیڈمی آف سائنسز کے پروفیسر اے وی لومانوف بتاتے ہیں کہ مارکسزم روس میں 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں تیار ہوا، جہاں اسے لینن ازم کے نام سے جانا جانے لگا۔ “چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مارکسزم کی موافقت کے ساتھ 1930 کی دہائی میں ایک نیا مرحلہ شروع ہوا، جسے ‘چینی خصوصیات کے ساتھ مارکسزم  کہا جاتا ہے-

ژن ژیانگ  بتاتے ہیں کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے مارکسزم کے بنیادی اصولوں کو چین کے حقیقی حالات اور روایتی ثقافت کے ساتھ مربوط کیا ہے، جسے “دو امتزاج” کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سوشلسٹ مستقبل کو حاصل کیا ہے جس کا مارکس نے چین کی سماجی ترقی کے لیے تصور کیا تھا-سابق سوویت

یونین کی کمزوری کے بارے میں بات کرتے ہوئے، لومانوف کا خیال ہے کہ یہ ایک  “دوسرے امتزاج کی عدم موجودگی تھی۔ “پہلے مجموعہ یا امتزاج �

 مارکسی نظریہ کو ملک کے مخصوص حالات کے مطابق ڈھالنا شامل تھا۔ تاہم، دوسرا مجموعہ یا امتزاج، جس کا چین نے آغاز کیا، اس میں مارکسزم کو روایتی ثقافت کے ساتھ مربوط کرنا شامل تھا۔ سوویت تناظر میں، مارکسزم کو قبول کرنے کا مطلب اکثر روایتی ثقافت کو مسترد کرنا ہوتا ہے، جس نے آگ اور پانی کو ملانے کے مترادف ایک بنیادی تنازعہ پیدا کیا۔ سوویت ثقافت، خاص طور پر آرتھوڈوکس عیسائیت کی تشکیل نے، سوویت یونین کی ثقافت کو اس کی مذہبی جڑوں سے الگ کرنا مشکل بنا دیا۔ نتیجتاً، سوویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی اس  مسلے کو حل کرنے میں ناکام رہی، اور یہ گہری ثقافتی بنیاد – جس کی خصوصیات مضبوط مذہبی عناصر ہیں – سوویت یونین کے تحلیل ہونے تک حل طلب رہی-

چینی اکیڈمی آف  مارکسزم کے ڈائیریکٹر ژان ژیانگ مزید کہتے ہیں کہ  ہزاروں سالوں سے چینی “عظیم ہم آہنگی” اور “دنیا سب کے لیے ہے” کے نظریات کے لیے کوشاں ہیں۔جو  تصور کے حامی رہے ہیں یہ نظریات کمیونزم کے مارکسی تصورات کے ساتھ گہرائی سے گونجتے ہیں اور ایسے معاشرے کے بارے میں مارکس کے تصور سے قریب سے ہم آہنگ ہیں جہاں لوگ  یا عوام”تاریخ کے مرکزی کردار” ہیں۔ ریاست کی بنیاد کے طور پر عوام کے کردار پر یہ زور عوام کی بھلائی کو ترجیح دینے کے تاریخی چینی اصول کے متوازی ہے –

 چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ ’’چین میں مارکسزم کے متعارف ہونے کے بعد سے سائنسی سوشلزم کو چینی عوام نے بڑے پیمانے پر قبول کیا ہے۔ اس نے اس ملک میں جڑ پکڑ لی ہے اور متاثر کن نتائج دیے ہیں۔ یہ واضح طور پر حادثاتی نہیں ہے۔ یہ ثقافت اور اقدار سے مطابقت رکھتا ہے جسے ہمارے لوگوں نے کئی ہزار سالوں سے اپنایا ہے۔

چینی ثقافت روایتی طور پر کنفیوشس ازم میں جڑی ہوئی ہے، اس دوران، کنفیوشس ازم، داؤ ازم، اور دیگر ثقافتی عناصر کے درمیان ایک تکمیلی تعلق پوری تاریخ میں دیکھا گیا۔ شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی کے پروفیسر زنگ یون وین کا خیال ہے کہ اس ثقافتی شمولیت نے چین میں مارکسزم کے تعارف کی طرف زیادہ خوش آئند رویہ میں حصہ ڈالا ہے، جبکہ دوسرے خطوں  اور علاقوں میں  ثقافت،مزہب   اور مارکسزم کا یہ  انضمام مسترد کیا گیا ہے-

“Over  the past 40 years, China has lifted nearly 800 million people out of poverty. The urbanization process did not lead to social unrest or the emergence of urban slums. A well-off society has been established through poverty alleviation measures and initiatives focusing on rural revitalization.”

مضمون نگار کا کہنا ہے کہ گزشتہ 40 سالوں میں چین نے تقریباً 800 ملین(80 کروڑ)  لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ شہری کاری کا عمل سماجی بدامنی یا شہری کچی آبادیوں کے ابھرنے کا باعث نہیں بنا۔ غربت کے خاتمے کے اقدامات اور دیہی احیاء پر توجہ مرکوز کرنے والے اقدامات کے ذریعے ایک خوشحال معاشرہ قائم کیا گیا ہے۔پروفیسر اے وی لومانوف کے مطابق، چین نے 19ویں صدی کے اواخر سے مختلف مغربی علوم کو  جذب کرنا شروع کر دیا تھا ، جس میں مارکسزم، نظریہ ارتقا، لبرل ازم اور کلاسیکی معاشیات شامل ہیں۔ ایک صدی سے زیادہ کی تلاش کے بعد، چین نے ان خیالات کو اپنے منفرد حالات کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے، اپنی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز کا انتخاب کیا۔ “بہت سے مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ چین نے سرمایہ دارانہ راستہ اختیار کیا ہے۔ اگر چین نے واقعی ڈینگ ژیاؤپنگ کی طرف سے بیان کردہ اصلاحات کے دوران سرمایہ داری کی پیروی کی ہوتی تو یہ شاید آج کی نسبت بہت زیادہ غریب اور کمزور ہوتا۔ چین کی کامیابیاں سرمایہ دارانہ ماڈل کی پیروی سے نہیں بلکہ چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کے اپنے راستے پر چلنے سے حاصل ہوئی ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایڈم سمتھ کے “غیر مرئی ہاتھ” کا چین میں بہت کم اثر ہوا ہے۔ اس لیے کمیونسٹ پارٹی کا منتخب کردہ تاریخی راستہ چین کی ترقی کی معروضی ضروریات کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے-

لومانوف کا خیال ہے کہ مارکسزم کی لچک کا اہم ذریعہ اس کی ترقی اور مقامی حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے  سماجی علوم کے علماء کے ساتھ مل کر “دوسرے امتزاج” کو آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ اگر کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ دنیا بھر کے نظریات اور مفکرین کے لیے اہم ترغیب فراہم کر سکتا ہے-

اکیڈمی آف مارکسزم چائینا پروفیسر زن زیانگ یانگ  اس نکتے کی بازگشت کرتے ہوئے،  کہتے ہیں کہ عالمی مارکسزم چینی جدیدیت کے تاریخی عمل کے اندر مسلسل سوالات کھڑا کر رہا ہے، جس میں عصری مارکسزم ان مسائل کو حل کر رہا ہے اور انہیں منظم طریقے سے نظریاتی طور پر واضح کر رہا ہے۔مارکسزم اس وقت کے مسائل کو کیسے حل کرتا ہے، جب دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، علاقائی تنازعات اور غربت سمیت بہت سے پرانے اور نئے چیلنجز کا سامنا ہے؟ دنیا کیسے ایک انسانیت بن جائے گی اور ایک دوسرے کو حریف اور دشمن سمجھنا چھوڑ دے گی؟

قبرص کی پروگریسو پارٹی آف ورکنگ پیپل (اکیل) کی سینٹرل کمیٹی سے تعلق رکھنے والی ایلینی ایواگورو کہتی ہیں کہ یورپ کو ایک مشکل وقت کا سامنا ہے، کیونکہ بہت سے لوگ غربت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ یورپ کو زیادہ سماجی اور عوام پر مبنی پالیسی کی طرف اپنا راستہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ “ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سرمایہ داری ہمیشہ بڑا اور عظیم تر بننا چاہتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس سامراجی جنگیں ہیں، جو ہمارے دور کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ سرمایہ داری ہتھیاروں وغیرہ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا چاہتی ہے،”

پروفیسر لومانوف مغربی سرمایہ داری پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جس کا استثنیٰ عروج پر ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مغربی معاشرے میں دوسری تہذیبوں اور مختلف نظریاتی یا ترقی کے راستوں کو خارج کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کے برعکس، وہ چینی سوشلزم کے بارے میں فکر مند نہیں ہے، کیونکہ اس میں چینی ثقافت شامل ہے، جو ایک ہم آہنگ ثقافت کی نمائندگی کرتی ہے جو تنوع کو اپناتی ہے، باہمی خوبصورتی اور بقائے باہمی کو فروغ دیتی ہے-19ویں صدی میں مارکسزم کا جنم مغرب کو درپیش متعدد مسائل سے ہوا۔ پروفیسر زنگ یون وین بتاتے ہیں کہ چین ایک نظریاتی بنیاد کے طور پر مارکسزم کے ساتھ تقابلی نقطہ نظر کو برقرار رکھتا ہے، جو مغربی ماڈلز کی اندھی تقلید سے بچنے میں مدد کرتا ہے۔ مغرب سے سیکھتے ہوئے چینی لوگ تنقیدی نقطہ نظر اپناتے ہیں۔ “مغرب نے بے ساختہ ترقی کی ہے، جب کہ ہم اپنے نقطہ نظر میں زیادہ باشعور ہیں۔ ہمارا تنقیدی نقطہ نظر، جو مارکسزم میں جڑا ہوا ہے، دنیا کا مشاہدہ کرنے کے ایک آلے کے طور پر کام کرتا ہے، جس سے بہت سے مسائل کی گہری تفہیم ہوتی ہے-“

اسپین کی کمیونسٹ پارٹی کے صدر جوز لوئس سینٹیلا کے مطابق سوشلسٹ معاشرے کی نوعیت سرمایہ داری سے بنیادی طور پر مختلف ہوتی ہے۔ سوشلسٹ نظام میں، قومی کامیابیوں کے مستفید عوام ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، سرمایہ دارانہ معاشرے میں، معاشی فوائد لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو حاصل ہوتے ہیں- چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کی ترقی درحقیقت انسانیت کے لیے انصاف اور انصاف کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے

 پروفیسر زن زیانگ یانگ نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ سرمایہ داری اس مقام پر پختہ ہو چکی ہے جہاں استحصال کے ذریعے پیدا ہونے والی دولت سے سماجی بہبود اور اعلیٰ فوائد کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ تاہم، جیسا کہ اقتصادی نظام مسلسل بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں، ترقی پذیر ممالک سے اس طرح کے منافع کو حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے، خاص طور پر چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کی ترقی کے ساتھ۔ اس نقطہ نظر سے، چین غیر منصفانہ بین الاقوامی اقتصادی نظام کو زیادہ منصفانہ اور زیادہ معقول میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مغربی ممالک کے لیے اجارہ داری کے منافع کو محفوظ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ مغربی ممالک کی طرف سے سپلائی چین میں خلل ڈالنے اور ان میں خلل ڈالنے پر زور دیا جا رہا ہے، اور یہ سرمایہ کے لیے ناقابل قبول ہے اور فلاحی نظاموں کی پائیداری کے لیے خطرہ ہے-

مغرب میں زیرو سم ذہنیت کہاں سے آتی ہے؟ پروفیسر لومانوف کہتے ہیں کہ ذہنیت کی جڑیں 20ویں صدی میں ہیں، جب مغرب کا خیال تھا کہ سرد جنگ میں فتح آسان اور سیدھی تھی – بغیر گولی چلائے اور بغیر کسی جانی نقصان کے سوویت یونین کو شکست دینا۔ مغرب نے سوویت یونین کو معاشی اور نظریاتی مقابلے کے ذریعے کمزور کیا، جس کے نتیجے میں اس کا خاتمہ ہوا۔ “اس کے نتیجے میں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس کامیابی کو آسانی سے نقل کیا جا سکتا ہے: اگر آپ کسی کو ناپسند کرتے ہیں، تو آپ آسانی سے ایک نئی سرد جنگ کا اعلان کر سکتے ہیں، اور چند سالوں یا دہائیوں کے بعد، اپنے مخالف کو شکست دینا آسان ہو جائے گا۔ تاہم، مجھے یقین ہے کہ چین دوسرا سوویت یونین نہیں ہے۔ صورت حال بدل گئی ہے؛ ثقافتی بنیادیں مختلف ہیں، لوگوں کی ہم آہنگی ایک جیسی نہیں ہے، اور کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کی صلاحیتیں نمایاں طور پر مختلف ہیں-

سری لنکا کے مارکسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ونود مون سنگھے کا کہنا ہے کہ سامراج کی طاقتیں اپنے ہی معاشی مسائل سے نکلنے کے لیے جنگی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کی بازگشت کرتے ہوئے، کیوبا انسٹی ٹیوٹ آف فلاسفی کے نائب صدر، الفریڈو گارسیا جمنیز نے اپنی بات کہنے کے لیے اعداد کا استعمال کیا: “چین کے فوجی اخراجات اس کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہیں۔ ریاستہائے متحدہ کے فوجی اخراجات اس کی جی ڈی پی کا 3.45 فیصد ہیں، یعنی اس کے دفاعی اخراجات چین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔ سرمایہ دار ممالک اکثر بحرانوں سے بچنے کے لیے جنگ کا سہارا لیتے ہیں، کیونکہ جنگ ہتھیاروں اور آلات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے، جس کی وجہ سے فوجی فنڈنگ ​​پر توجہ مرکوز ہوتی ہے-

جوز لوئس سینٹیلا نے نشاندہی کی کہ یوکرین میں تنازعہ بڑھنے کے ساتھ اس وقت انسانیت کو سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ چین جیسی عالمی طاقتوں کے لیے دنیا کو امن اور اتحاد کا پیغام دینا بہت ضروری ہے۔ فی الحال، لاکھوں ڈالر یوکرین کے تنازعے کے لیے ہتھیاروں میں ڈالے جا رہے ہیں، اس فنڈز کو ترقی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ لاکھوں لوگوں کو غربت سے بچنے میں مدد ملے۔ یہ چین کے عالمگیریت کے اقدامات کی اہمیت کو واضح کرتا ہے خاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ، جس کا مقصد دنیا کے ہر کونے میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔ مزید برآں، چین کا گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو، گلوبل سیکورٹی انیشیٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشیٹو چینی صدر کی طرف سے تجویز کردہ چار اقدامات انسانیت کے سب سے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ہیں، جیسے کہ بھوک اور خوراک کی عدم تحفظ اور بیماریوں میں مبتلا لاکھوں افراد کی حالت زار۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم زمین پر امن اور ترقی کو فروغ دیتے ہوئے پوری انسانیت کے لیے مشترکہ تقدیر کیسے تشکیل دے سکتے ہیں۔

ونود مون سنگھے نے مزید کہا کہ اگر بی آر آئی آج نہ ہوتا تو دنیا کی معیشت خاص طور پر عالمی مالیاتی بحران کے بعد بہت بری حالت میں ہوتی۔  “سری لنکا جیسے ممالک میں، یہ بالکل تباہ کن تھا۔ لہٰذا، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے بغیر، ہم دنیا میں بہت کم ترقی  کر پاتے۔ درحقیقت، یہ چین کا اقدام ہے جو پوری دنیا میں نئے مواصلاتی نیٹ ورک کھول رہا ہے اور گلوبل ساؤتھ کو خاص طور پر اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ بی آر آئی

دراصل دنیا پر مغربی تسلط کے لیے ایک خطرے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اور مغرب جس طریقے سے گلوبل ساؤتھ سے دولت نکالتا ہے  مغرب سمجھتا ہے کہ بی آر آئی کے ذریعے  اسے نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ لہذا، بی آر آئی گلوبل ساؤتھ کے عروج کی نمائندگی کرتا ہے۔

جوزلیوس سینٹریلا  بین الاقوامی ترتیب میں دو مخالف نظریات کے بارے میں بات کرتے ہیں: ایک چین کی طرف سے تجویز کردہ کثیر جہتی آرڈر، جو اقوام متحدہ کے اصل اصولوں پر مبنی ہے اور مساوی اور باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات پر زور دیتا ہے۔ دوسرا ایک نئی سرد جنگ کو جنم دینا چاہتا ہے، دنیا کو مخالف بلاکوں میں تقسیم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل، جیسا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے بیان کیا ہے، ایک مشترکہ کثیرالجہتی بین الاقوامی ترتیب پر قائم ہو سکتا ہے۔ اس ترتیب میں تمام ممالک اور ثقافتیں ایک دوسرے کی زندگیوں کو جوڑ سکتی ہیں اور ان کو تقویت بخش سکتی ہیں۔

پروفیسر لومانوف نے خطاب کیا کہ تمام انسانیت بشمول ترقی یافتہ مغربی ممالک، گلوبل ساؤتھ میں غریب قومیں، اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتوں کو مشترکہ ترقی اور خوشحالی کی شرط کے طور پر عالمگیریت کی ضرورت ہے۔ “تاہم، مغربی ممالک جامع عالمگیریت سے منتخب یا جزوی عالمگیریت کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ اعلی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، اور علم میں اہم پیش رفت جو قومی صلاحیتوں پر اثرات مرتب کرتی ہے اکثر اس فریم ورک سے باہر رکھی جاتی ہے۔ مغرب کا مقصد اس مقامی گلوبلائزیشن کے ذریعے اپنے فوائد اور بالادستی کو برقرار رکھنا ہے۔ ان کے لیے یہ اقتصادی عقلیت کے بارے میں کم اور طاقت کو برقرار رکھنے کے بارے میں زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں، گلوبل ساؤتھ سے عالمگیریت کی ایک نئی شکل ابھرنے کا امکان ہے۔ چین کی کامیابیاں اس کے مکمل طور پر مغربیت سے انکار اور ایک نئی راہ کی تلاش سے پیدا ہوئی ہیں۔ پروفیسر لومانوف بتاتے ہیں کہ اس ملک کی ابتدائی طور پر مغربی ماڈل کی تقلید کام نہیں آئی، اور بعد میں سٹالنسٹ ماڈل کو اپنانا بھی بے اثر ثابت ہوا، اور چین نے بہت سی غلطیاں کی ہیں اور اس راستے میں بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اس کے باوجود ثابت قدمی سے اپنے راستے پر چلتے ہوئے، یہ اب عالمی سطح کے مرکز کے قریب آچکا ہے-

جوز لوئس سینٹیلا نے چینی صدر شی جن پنگ کے حوالے سے کہا کہ سوشلزم کو ہر ملک کے معاشی اور ثقافتی حالات کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ اس کی نقل نہیں کی جا سکتی، لیکن اس سے سیکھا جا سکتا ہے، جیسے کہ چین نے کس طرح مارکیٹ کی قوتوں کو منفرد خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا، کس طرح ایک بڑا ملک جنگ کے بجائے امن کا خواہاں ہے، اور وسیع جمہوریت کی ترقی کرتے ہوئے کس طرح وہ عوام کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے مرکز میں رکھتا ہے۔

Many experts believe that Marxism is a scientific method of looking at society, and it remains relevant in analysing society and in analysing how each society can develop. Professor Zhang Youkui from Xiamen University reminds people that the view of capitalism cannot be overly simplistic as capitalism played a positive and progressive role at a certain historical stage. However, the inherent contradictions and difficulties within capitalism inevitably lead to the emergence of new social forms. “Marx scientifically argued this theory, and looking at practical developments since the 20th century, I believe Marx’s insights remain relevant.”

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ مارکسزم معاشرے کو دیکھنے کا ایک سائنسی طریقہ ہے، اور یہ معاشرے کا تجزیہ کرنے اور ہر معاشرہ کس طرح ترقی کر سکتا ہے اس کا تجزیہ کرنے میں متعلقہ رہتا ہے۔  زیامن یونیورسٹی کے  پروفیسر ز ہانگ یوکوری لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ سرمایہ داری کا نظریہ حد سے زیادہ سادہ نہیں ہو سکتا کیونکہ سرمایہ داری نے ایک خاص تاریخی مرحلے پر مثبت اور ترقی پسند کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، سرمایہ داری کے اندر موجود موروثی تضادات اور مشکلات لامحالہ نئی سماجی شکلوں کے ظہور کا باعث بنتی ہیں۔ “مارکس نے سائنسی طور پر اس نظریہ پر استدلال کیا، اور 20ویں صدی کے بعد کی عملی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے، مجھے یقین ہے کہ مارکس کی بصیرت متعلقہ رہتی ہے-

 زین یوان وینگ کہتا ہے کہ “مارکسزم مغرب میں شروع ہوا، لیکن اس کا نقطہ نظر پوری انسانیت کا حوالہ دیتا ہے، انسانی وجود اور ترقی سے قریبی تعلق رکھنے والے بنیادی مسائل کو حل کرتا ہے،”  اس نے مزید کہا۔ “جب چینی تہذیب کا آغاز ہوا، لوگوں نے جن سوالات پر غور کیا وہ فطرت کے ساتھ انسانیت کے تعلقات، ایک دوسرے کے ساتھ، اور افراد اپنے اندر ہم آہنگی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ ان سوالات کو قدیم یونانی فلسفیوں اور چینی مفکرین نے یکساں طور پر دریافت کیا تھا — لوگوں کو کیسے رہنا چاہیے، اور انسانیت کہاں جا رہی ہے۔ مارکسزم ایک ایسا نظریہ ہے جو مغرب میں سرمایہ داری پر تنقید کرنے کے لیے ابھرا، پھر بھی یہ انسانی وجود اور ترقی کے بنیادی مسائل پر پوری تاریخ کے مفکرین کے ساتھ مشترک ہے۔ مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں ان بنیادی سوالات سے مختلف انداز میں رجوع کر سکتی ہیں، مختلف جوابات پیش کرتی ہیں، لیکن بنیادی سوالات ایک ہی رہتے ہیں۔”

زین یوان وینگ کہتا ہے کہ جیسا کہ چینی صدر زی جن پنگ نے کہا کہ “آج اور کارل مارکس کے زمانے میں زبردست فرق کے باوجود عالمی سوشلزم کی پانچ سو سالہ تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم ابھی بھی وہیں ہیں جہاں مارکسزم نے کہا ہے کہ ہمیں ہونا چاھئے-یہ مارکسزم پر ہمارے مسلسل اعتماد اور سوشلزم کی فتح میں ہمارے اعتماد کی مناسب بنیاد ہے-“

Loading

The post One thought on “Is Marx still relevant today?” appeared first on Asia Commune.

]]>
8359
ٹرمپ، پاکستان اور نیا عہد https://asiacommune.org/2024/11/30/%d9%b9%d8%b1%d9%85%d9%be%d8%8c-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%86%db%8c%d8%a7-%d8%b9%db%81%d8%af/ Sat, 30 Nov 2024 03:28:44 +0000 https://asiacommune.org/?p=8246 امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمران…

The post ٹرمپ، پاکستان اور نیا عہد appeared first on Asia Commune.

]]>

امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمران دانتوں میں انگلیاں دبائے امریکہ میں آئے اس سیاسی زلزلے کو دیکھ رہے ہیں اوراس کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ واضح ہو چکا ہے کہ امریکی سماج تبدیل ہو چکا ہے اور عالمی تعلقات بھی ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی جہاں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی شکست ہے وہاں دنیا بھر کے حکمران طبقات کے لیے ایک معمہ بھی ہے اور وہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات ان کے خطے اور ملک پر کس طرح مرتب ہوں گے اور وہ کیسے ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ چین کے سامراجی ابھار کو روکنا اور عالمی تعلقات میں اس کے کردار کو ختم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ یوکرائن جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے چین کے حصار سے باہر نکالا جائے اور اسے امریکہ کا اتحادی بنایا جائے۔ ٹرمپ کی خواہشات جو بھی ہوں لیکن یہ واضح ہے کہ امریکی سامراج ماضی کی نسبت کمزور ہو چکا ہے اور عالمی تعلقات میں پہلے جیسا طاقتور کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ یوکرائن میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک اور ذلت آمیز شکست ہو چکی ہے اور مغربی سامراجی ممالک کا یہ اتحاد بھی ٹوٹ رہا ہے۔ ٹرمپ اگر نیٹو سمیت دیگر دفاعی معاہدوں اور اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یورپی ممالک میں سیاسی ہیجان بڑھے گا اور ریاستیں مزید کمزور ہوں گی۔

دوسری طرف چین اور روس گزشتہ عرصے میں مزید قریب آئے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ سے لے کر وسطی ایشیا اور دیگر خطوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ چین ابھی بھی امریکہ کے مقابلے میں ایک کمزور سامراجی طاقت ہے اور دفاعی اور مالیاتی اعتبار سے امریکہ سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کے علاوہ چین کا مالیاتی بحران بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ در حقیقت امریکہ اور چین سمیت تمام سامراجی ممالک کی بنیاد پر موجود سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کے باعث ہی ان سامراجی طاقتوں کا بحران شدت اختیار بھی کر رہا ہے اور ان کو ایک دوسرے پر حملے کرنے پر بھی مجبور کر رہا ہے۔ ان تجارتی جنگوں اور پراکسی لڑائیوں سے یہ بحران کم نہیں ہو گا اور نہ ہی مستقبل قریب میں سرمایہ دارانہ معیشت کی بحالی کا کوئی امکان موجود ہے۔

اسی طرح جنوبی ایشیا میں ٹرمپ انڈیا کو اپنا سب سے اہم اتحادی بنانے کا خواہشمند ہے اور اسے چین کے خلاف دفاعی اور سٹریٹجک حوالے سے اہم کردار دینا چاہتا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کے ذاتی تعلقات بھی بہت مضبوط ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد مبارکباد کی جو پہلی چند فون کالز وصول کیں ان میں سے ایک مودی کی بھی تھی۔ پچھلے صدارتی انتخابات میں مودی خود امریکہ جا کر ٹرمپ کے لیے جلسے منعقد کرتا رہا اور وہاں رہنے والے بھارتیوں کو ٹرمپ کو ووٹ دینے کی کمپین کرتا رہا۔ لیکن پچھلی دفعہ ٹرمپ کی شکست نے مودی کو نقصان پہنچایا تھا۔

اب یہ امکانات موجود ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے یہ سربراہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید قریب لائیں گے۔ امریکی سرمایہ داروں کو انڈیا کی وسیع منڈی کی ضرورت ہے جہاں وہ بلا روک ٹوک اپنی اشیا فروخت کر سکیں، گو کہ انڈیا اپنے سرمایہ داروں کے دباؤ کے تحت پہلے بھی اپنی منڈی کو پوری طرح کھولنے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ کے باعث بہت سے سرمایہ دار سستی لیبر کی تلاش میں انڈیا منتقل ہو رہے ہیں جس میں ایپل، ٹیسلا اور ایمازون جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے لیے مودی پہلے ہی مزدور دشمن قوانین جابرانہ طور پر مسلط کر رہا ہے تاکہ سرمایہ داروں کے منافعوں اور لوٹ مار کو یقینی بنایا جا سکے۔

پاکستان اور طاقتوں کا بدلتا توازن

اس صورتحال میں پاکستان کی معیشت، سیاست اور خطے میں اس کے کردار کے حوالے سے بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ افغانستان میں جاری سامراجی جنگ میں امریکہ کی شکست اور فوجوں کی واپسی کے بعد سے پاکستان کو ملنے والی امداد میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے اور ملکی معیشت دیوالیہ پن کی نہج پر پہنچ چکی ہے۔ پچھلی دفعہ جب ٹرمپ صدر تھا تو امریکی فوجی افغانستان میں موجود تھے اور امریکی حکمران انخلا کے منصوبے بنا رہے تھے۔ اس وقت صورتحال کافی مختلف ہے اور ٹرمپ کے لیے فوری طور پر یہاں کوئی بڑا مفاد موجود نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کا قتل عام اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں اور ٹرمپ اسرائیل کا بہت بڑا حمایتی اور مداح ہے۔

اسی طرح ایران کے حوالے سے وہ پہلے بھی جارحانہ اقدامات کر چکا ہے اور اس دفعہ بھی اس سے ایسی ہی توقعات کی جا رہی ہیں۔ لیکن دوسری طرف ٹرمپ دنیا میں جنگیں ختم کرنے کے نعرے لگا چکا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے تمام تر اقدامات اس کی خواہشات کے برعکس نکلنے کی امید زیادہ ہے۔

نظام کے زوال کے عہد میں نہ صرف جنگیں، خانہ جنگیاں اور پراکسی لڑائیوں میں اضافہ ہو گا بلکہ مالیاتی بحران اور کساد بازاری بھی شدت اختیار کرے گی۔ اسی طرح امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک سمیت دنیا بھر میں عوامی تحریکوں اور انقلابات کے ابھرنے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں اور آنے والا عرصہ سماجی اتھل پتھل اور انقلابات کا عہد ہے۔

ٹرمپ کے تمام تر فیصلے سرمایہ داری کو مضبوط کرنے، استحکام لانے اور امریکہ کو دوبارہ ”عظیم“ بنانے کی بجائے اس نظام کو مزید کمزور کرنے، عدم استحکام پھیلانے اور امریکی سامراج کے تیز ترین زوال کا باعث بنیں گے۔

ریاست کا بحران

پاکستان کی ریاست اور معیشت امریکہ سمیت مغربی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ہزاروں تانوں بانوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ برطانوی سامراج کی تخلیق کردہ اس ریاست کو چلانے میں آج بھی مغربی سامراجی طاقتیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ سامراجی گماشتگی کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کی امریکہ غلامی کے خلاف نعرے بازی کرنے والا عمران خان ٹرمپ سے رہائی کی امید لگائے بیٹھا ہے اور اس کے لیے اس کے بیرون ملک حمایتی عملی طور پر سرگرم بھی ہیں جبکہ دوسری طرف نواز شریف بھی الیکشن والے دن امریکہ میں موجود تھا۔

پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بھی امریکہ کے ایما پر ہی استوار کیے گئے تھے اور آج بھی پاکستان کی معیشت اور ریاست کے بنیادی ستون امریکی سامراج کے ہی ماتحت ہیں۔ لیکن چینی سامراج کا مالیاتی اثر و رسوخ بڑھنے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں میں اس کی مداخلت بھی بڑھی ہے۔ دوسری طرف امریکی سامراج اور مالیاتی نظام کے بحران کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح خطے میں طاقتوں کا تبدیل ہوتا ہوا توازن یہاں کے سماج پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

پوری دنیا کے مختلف ممالک کے حکمران امریکہ چین تنازعے میں اپنے ملک کے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے لیے محفوظ رستہ تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس تنازعے میں کس کا پلڑا حتمی طور پر بھاری ہو گا۔ اسی لیے دونوں اطراف کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے اور دونوں طرف تعلقات استوار کیے جا رہے ہیں۔

کمیونسٹ اس تنازعے کے شدت اختیار کرنے کا تناظر کئی سالوں سے تخلیق کر رہے ہیں اور واضح کر رہے ہیں کہ اس لڑائی میں کوئی بھی فریق واضح برتری حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لیکن ساتھ ہی تیسری عالمی جنگ کا کوئی امکان موجود نہیں جس کی وجوہات پھر عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن، جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اور تمام معیشتوں کا ایک دوسرے پر انحصار سمیت دیگر عناصر ہیں۔

پاکستان کی ریاست اور معیشت اپنے آغاز سے ہی سامراجی جنگوں کے ساتھ منسلک ہو گئی تھی اور آج تک اس ملک کی مالیاتی بنیادوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت بھی یہاں کے حکمران کسی نئی سامراجی جنگ میں شمولیت اختیار کرنے کے حکم نامے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ پھر اسلحے اور مالی امداد کی مد میں اربوں ڈالر کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ پاکستان کے حکمران صرف بھیک مانگ کر اور ملک کی جغرافیائی اہمیت کو فروخت کر کے ہی پیسہ کمانے کا ہنر جانتے ہیں۔ قدرتی آفات، ماحولیاتی تباہی اور دہشت گردی سمیت تمام ایشوز ان کے لیے محض دنیا سے بھیک مانگنے کا وسیلہ ہیں۔ صنعتی یا زرعی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر ان کی ترجیح کبھی بھی نہیں رہی اور نہ ہی عالمی سرمایہ داری کے زوال میں یہ ممکن ہے۔

جنگوں میں سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کرنے کے لیے جہاں فوج کے ادارے کو مضبوط کیا گیا وہاں ایسے رجعتی نظریات کا پرچار بھی کیا گیا اور ریاستی پشت پناہی میں ایسی قوتیں بھی تعمیر کی گئیں جہاں سے ان جنگوں میں خام مال بننے والی افرادی قوت بھی دستیاب ہو سکے۔ افغانستان میں ڈالر جہاد کے بعد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں بھی یہی افرادی قوت ریاست نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کی۔

اسی طرح اس ملک کے سرمایہ دار طبقے اور اس کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں اور حکمرانوں نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا اور پوری ریاستی مشینری اس مشن کے تحت استوار کی گئی۔ اس سامراجی منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے والی سیاسی قوتوں، مزدور و طلبہ تحریک کو جہاں غلط نظریات اوران کی قیادت کی غداریوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہاں ریاستی اداروں اور حکمران طبقے نے بھی انہیں پوری قوت سے کچلا۔

لیکن آج یہ خونی کھیل اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ سامراجی گماشتگی کرنے والی اس عوام دشمن ریاست کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے عیاں ہو چکا ہے اور آج یہ اپنے خونی پنجے علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پر گاڑ رہی ہے اور کروڑوں لوگوں کو بھوک اور بیماری کے ذریعے قتل کر رہی ہے۔ اس کی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے اور ریاست کے تمام ستون ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔

آئینی ترامیم

ریاست کے بحران کا اندازہ پچھلے مہینے ہونے والی آئینی ترامیم سے لگایا جا سکتا ہے۔ امریکی الیکشنوں سے پہلے جلد بازی میں کی جانے والی یہ ترامیم بظاہر اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور کرتی نظر آتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی گرفت ریاستی اداروں بشمول عدلیہ پر مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کا خاتمہ جیسے اقدامات سے بھی یہی تاثر ملتا ہے اور درحقیقت یہ فیصلے کرنے والوں کے مقاصد بھی یہی ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ ان اقدامات کے نتائج ان کو کرنے والوں کی مرضی کے الٹ نکلیں گے۔

عدلیہ کا ادارہ کمزور ہونے سے ریاست کا بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ عدلیہ پر عوام کا اعتماد اور اس سے انصاف کی امید کب کی ختم ہو چکی ہے اور جہاں نچلی سطح کی عدالتوں کی کرپشن اور لوٹ مار انتہاؤں کو چھو رہی ہے وہاں اب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی کرپشن اور طاقتوروں کی کاسہ لیسی کے قصے زبان زد عام ہیں۔ ایسے میں انصاف کا یہ تماشا اب صرف تماشائیوں کے لیے کرتب دکھانے تک ہی محدود ہو گیا تھا یا پھر حکمران طبقے کی باہمی لڑائیوں میں ایک یا دوسرے دھڑے کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔

اب سؤو موٹو جیسے اختیارات پر قدغنیں لگا کراس کے کرتبوں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں اور اس کو مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن نتیجتاًیہ مزید بے قابو ہو جائے گا اور ریاست کے دیگر اداروں کی طرح اپنے انہدام کے سفر کو تیز کرے گا۔

اسی طرح حکمران طبقے کی باہمی لڑائیوں اور سماجی و مالی بحران نے فوج کے سربراہ کا عہدہ بھی کمزور کر دیا ہے اور اب آئینی طریقے سے اس میں ہوا بھرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غبارے کو پھٹنے کے لیے محض ایک چھوٹی سے نوکیلی چیز کافی ہوتی ہے جبکہ یہ سماج تو اس وقت کانٹوں سے بھرا جنگل ہے جس میں کوئی بھی چھوٹا سا واقعہ ان منصوبوں کو اپنے الٹ میں تبدیل کر سکتا ہے۔ پراجیکٹ عمران خان کی لانچنگ اور پھر اپنے آقاؤں کے لیے اس کے نتائج سے یہاں ہر کوئی آگاہ ہے۔ یہی کچھ موجودہ آئینی ترامیم اور حکمرانوں کے ساتھ بھی متوقع ہے۔

اس سماج کی کوکھ میں اس وقت بہت بڑی انقلابی تحریکیں پنپ رہی ہیں جو آنے والے عرصے میں سطح پر اپنا اظہار لازمی طور پر کریں گی۔ ابھی بھی کشمیر سے لے کر گوادر تک عوامی تحریکیں موجود ہیں اور پنجاب میں طلبہ کے احتجاجوں نے نئے عہد کی آمد کی اطلاع دے دی ہے۔ یہ عہد تضادات سے بھرپور ہو گا اور اس میں پرانے تمام سماجی رشتے، پرانی سیاست، پرانے ریاستی ڈھانچے اور بظاہر عقلی نظر آنے والے تمام مفروضے رد ہو جائیں گے اور نئے تعلقات اور سماجی رشتے ان کی جگہ ابھر کر سامنے آئیں گے۔ بوسیدہ اور فرسودہ نظریات رد ہو جائیں گے اور لاکھوں لوگ اس نئی دنیا کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ اور تناظر بنانے کے لیے نئے نظریات کی جانب رجوع کریں گے۔

ایسے میں کمیونزم کا نظریہ ہی وہ واحد نظریہ ہے جو ایسے غیر معمولی حالات کا درست تجزیہ اور تناظر پیش کر سکتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد میں کار بند جدلیاتی مادیت کا فلسفہ تضاد کو ہی اپنی بنیاد بناتا ہے اور ہر سماجی و فطری عمل یا سوچ میں موجود تضاد کو اس کے تمام پہلوؤں کو ساکت و جامد دیکھنے کی بجائے اسے ان کی حرکت میں سمجھتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کے اگلے مرحلوں کی پیش گوئی کرتا ہے۔

اس سماج میں سرمایہ دار اور مزدور کا طبقاتی تضاد سب سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ سرمائے کی آمریت پر قائم اس نظام میں سب سے طاقتور یہاں موجود کوئی جرنیل یا جج نہیں بلکہ سرمایہ دار ہیں۔ بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان، مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہان اور ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھنے والے افراد۔ سیاستدان، ملٹری یا سول بیوروکریٹ اور جج محض اس طبقے کے نمائندے ہیں اور ان کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہاں پر تمام تر پالیسیاں بھی اسی طبقے کے مفاد کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں۔

لیکن اس طبقے کی حاکمیت اب خطرے میں ہے کیونکہ ان کا نظام اب سماج کو ترقی دینا تو دور اسے موجودہ خستہ حالت میں بھی برقرار نہیں رکھ پا رہا اور لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ اسی لیے اس طبقاتی سماج کا دوسرا فریق مزدور طبقہ اب حرکت میں آنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ مزدور طبقہ جب انقلابی تحریک میں باہر نکلے گا تو صرف سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد نہیں کرے گا بلکہ ملکیت کے بنیادی رشتوں کو بھی اکھاڑنے کا آغاز کرے گا۔

بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، مالیاتی اداروں اور تمام تر ذرائع پیداوار کی ملکیت مٹھی بھر سرمایہ داروں سے چھین کر اجتماعی ملکیت میں لے لی جائیں گی اور ملکیت کے اس نئے نظام کے لیے پھر نیا آئین اور قانون بنایا جائے گا اور اسی کی مناسبت سے ادارے تشکیل دیے جائیں گے جسے مزدور ریاست کہا جاتا ہے۔

انقلابی تبدیلی کے اس خوبصورت سماجی عمل کو سوشلسٹ انقلاب کا نام دیا جاتا ہے اور اسے کامیاب کرنے کے لیے ایک ایسی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو اس تمام عمل کی نظریاتی بنیادوں پر عبور رکھتی ہو اور مزدور طبقے کی وسیع پرتوں تک یہ نظریات پہنچا کر اسے اپنی صفوں میں منظم کر رہی ہو۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی یہاں ایسے ہی انقلاب کی تیاری کر رہی ہے جس کی کامیابی کے امکانات موجودہ عہد میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ تمام مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں سے اپیل ہے کہ فوری طور پر اس پارٹی کے ممبر بنیں اور اس انقلاب کی کامیابی میں اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔

Loading

The post ٹرمپ، پاکستان اور نیا عہد appeared first on Asia Commune.

]]>
8246
لیبر قومی موومنٹ پاکستان کا پیغام https://asiacommune.org/2024/11/30/%d9%84%db%8c%d8%a8%d8%b1-%d9%82%d9%88%d9%85%db%8c-%d9%85%d9%88%d9%88%d9%85%d9%86%d9%b9-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%d8%a7-%d9%be%db%8c%d8%ba%d8%a7%d9%85/ Sat, 30 Nov 2024 03:19:20 +0000 https://asiacommune.org/?p=8236 The post لیبر قومی موومنٹ پاکستان کا پیغام appeared first on Asia Commune.

]]>

Loading

The post لیبر قومی موومنٹ پاکستان کا پیغام appeared first on Asia Commune.

]]>
8236
ٹرمپ ازم کیا ہے؟ – RCP | انقلابی کمیونسٹ پارٹی https://asiacommune.org/2024/11/08/%d9%b9%d8%b1%d9%85%d9%be-%d8%a7%d8%b2%d9%85-%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%db%92%d8%9f-rcp-%d8%a7%d9%86%d9%82%d9%84%d8%a7%d8%a8%db%8c-%da%a9%d9%85%db%8c%d9%88%d9%86%d8%b3%d9%b9-%d9%be%d8%a7%d8%b1%d9%b9/ Fri, 08 Nov 2024 01:28:11 +0000 https://asiacommune.org/?p=8134 |تحریر: برائس گورڈن، ترجمہ: ولید خان| امریکیوں کو یہ سننے کی عادت پڑ چکی ہے کہ ہر انتخاب ”ہماری زندگیوں کا اہم ترین (انتخاب) ہے“۔…

The post ٹرمپ ازم کیا ہے؟ – RCP | انقلابی کمیونسٹ پارٹی appeared first on Asia Commune.

]]>
|تحریر: برائس گورڈن، ترجمہ: ولید خان|

امریکیوں کو یہ سننے کی عادت پڑ چکی ہے کہ ہر انتخاب ”ہماری زندگیوں کا اہم ترین (انتخاب) ہے“۔ اس سال دونوں امیدواروں نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بحث عام کر دی ہے کہ یہ انتخابات امریکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں۔ ”ٹرمپ کی حمایت یا مخالفت؟!“۔ دونوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے اس سوال کو بقاء کا سوال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ ازم کیا ہے؟ اس سوال پر بہت زیادہ ابہام موجود ہے۔ اس بیماری کی درست تشخیص کیے بغیر یہ سمجھنا ناممکن ہے کہ امریکی سماج کی سمت کیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

عدم استحکام کا عہد

ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک امریکی حکمران طبقے نے حیران کن سیاسی استحکام کے مزے لوٹے ہیں۔ لیکن صورتحال 2016ء میں تبدیل ہونی شروع ہو گئی جب عام انتخابات میں دہائیوں سے جاری معاشی گراوٹ اور طبقاتی غم و غصہ پھٹ کر سطح پر نمودار ہو گئے۔ معاشی قوم پرستی اور تارکین وطن، خواتین اور دیگر محکوم اقوام کے حوالے سے شاونسٹ شعلہ بیانی کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ معاشی بحالی کرے گا اور ”سب سے پہلے امریکہ“ ہو گا۔ اس نے اپنے آپ کو واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ”باہر کا فرد“ بنا کر پیش کیا جو امریکی عوام کی بہتری کا خواہش مند ہے اور اس کے نتیجے میں اس نے ریپبلیکن پارٹی پر قبضہ کر کے اسے مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔

لبرلز ٹرمپ کے ابھار کو غیر معمولی اور قابل تاسف حادثہ دیکھتے ہیں اور پریشان ہیں کہ ”آمریت کی جانب“ مسلسل بڑھا جا رہا ہے۔ اگرچہ کچھ اعتراف کرتے ہیں کہ اس نے حقیقی مایوسی کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے لیکن اسے عام طور پر ایک شاطر فرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو اکیلے ہی ملک کا جمہوری پردہ چاق کر سکتا ہے۔ لیکن سیاسی رجحانات آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ ایک خیال کو ارتقاء پذیر ہو کر سماج میں جڑیں بنانے کے لیے در پیش مسائل کا حل سمجھا جانا ایک کلیدی عمل ہے۔

ٹرمپ کے ابھار کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ سماج میں خیالات کیسے جنم لیتے اور اثر انداز ہوتے ہیں۔ کارل مارکس نے اس حوالے سے 1859ء میں اپنی کتاب ”سیاسی معیشت پر تنقید میں حصہ“ کے دیباچے میں لکھا کہ:

”اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے افراد سماجی پیداوار میں حصہ ڈالتے ہوئے ناگزیر طور پر ٹھوس تعلقات میں بندھ جاتے ہیں جو ان کی خواہشات سے بالاتر ہوتے ہیں یعنی پیداوار کی مادی قوتوں کے ارتقاء میں کسی بھی سطح کی مناسبت سے پیداواری تعلقات۔ ان پیداواری رشتوں کی کلیت سماج کا معاشی ڈھانچہ بناتی ہے، حقیقی بنیاد، جس پر ایک قانونی اور سیاسی بالائی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے اور جس سے سماجی شعور کی ٹھوس شکلیں منسلک ہوتی ہیں۔ مادی زندگی کی پیداوار کا ذریعہ ہی سماجی، سیاسی اور دانشورانہ زندگی کے عمومی عمل کی تراش خراش کرتا ہے۔ یہ افراد کا شعور نہیں ہے جو ان کے وجود کا فیصلہ کرتا ہے بلکہ یہ ان کا سماجی وجود ہوتا ہے جو ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ ارتقاء کے ایک مخصوص مرحلے پر سماج کی مادی پیداواری قوتیں موجودہ پیداواری رشتوں کے ساتھ ٹکراؤ میں آ جاتی ہیں یا اسی صورتحال کی قانونی اصطلاحات میں تشریح کی جائے۔۔ ان ملکیتی رشتوں کے ساتھ (ٹکراؤ) جو پہلے (موجودہ بالائی) ڈھانچے میں فعال تھے۔ پیداواری قوتوں کے ارتقاء میں معاون یہ تعلقات رکاوٹوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پھر سماجی انقلاب کا عہد شروع ہوتا ہے۔ معاشی بنیادوں میں تبدیلیاں جلد یا بدیر پورے دیو ہیکل بالائی ڈھانچے کی تبدیلی کا موجب بن جاتی ہیں۔“

یعنی خیالات آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ وہ سماجی وجود کے عمل میں نمودار ہوتے ہیں جن کی مادی اور معاشی بنیادیں ہوتی ہیں۔ ٹرمپ نے ضرور امریکی سماج اور معاشی تعلقات میں موجود کسی ٹھوس چیز کو متوجہ کیا ہے جس نے اس کا پیغام زبان زدِ عام کر دیا ہے۔ بطور مارکس وادی ہمیں ہر صورت ”معاشی بنیادوں میں تبدیلیوں“ کی نشاندہی کرنی ہے جنہوں نے امریکی سیاسی بالائی ڈھانچے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔

ٹرمپ ازم: ارتقاء کی نصف صدی

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سرمایہ داری پوری دنیا میں سب سے طاقتور سامراجی قوت بن کر ابھری۔ یورپ اور جاپان مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکے تھے۔ جنگ میں 3 کروڑ 65 لاکھ یورپی جبکہ 4 لاکھ 5 ہزار امریکی قتل ہو چکے تھے۔ یورپ کی سب سے طاقتور معیشت جرمنی کو 1890ء کی صنعتی پیداوار کی سطح پر دھکیلا جا چکا تھا۔ اس دوران امریکی صنعت پوری آب و تاب سے پیداواری عمل میں مصروف تھی۔

جنگ کے بعد سالہا سال امریکہ کا پوری دنیا میں بننے والی کل مینوفیکچرنگ میں 43 فیصد، اسٹیل میں 57 فیصد اور گاڑیوں میں 80 فیصد حصہ تھا۔ اس کے ساتھ نئی ٹیکنالوجیوں اور جنگی پیداواری ضروریات پوری کرنے کے لیے پیداواری قوتوں میں بڑھوتری نے سرمایہ دارانہ تاریخ کے سب سے خوشحال عہد کو جنم دیا جس کے ساتھ معیار زندگی میں شاندار بہتری ہوئی۔ صنعت دن رات فعال تھی، منافع بخش سرمایہ کاری کے وسیع ترین مواقع موجود تھے اور سرمایہ داری عمومی طور پر تیزی سے پھیل رہی تھی۔ 1945-46ء میں ایک دیوہیکل ہڑتالی لہر کے نتیجے میں بہتر اجرتیں اور سہولیات حاصل ہو گئیں اور عام امریکی محنت کشوں کو سماجی مراعات جیسے پینشن اور صحت انشورنس بھی میسر آ گئیں۔

اس عہد میں مینو فیکچرنگ اشیاء کی عالمی تجارت میں امریکی حصہ 1933ء میں 10 فیصد سے بڑھ کر 1953ء میں 29 فیصد ہو گیا۔ بیروزگاری کم تر سطح پر تھی، اجرتیں بڑھ رہی تھیں اور محنت کش آسانی سے مینوفیکچرنگ نوکریاں حاصل کر رہے تھے، جن کے ذریعے وہ گھر خرید رہے تھے اور خاندان بنا رہے تھے۔ 1946-73ء کے دوران حقیقی گھریلو آمدن میں 74 فیصد اضافہ ہوا اور امریکیوں کے لیے معیاری اور سستی رہائش، تعلیم، صحت، تفریحی وقت وغیرہ وغیرہ میسر رہے۔

ان سالوں نے امریکی محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ کئی نسلوں میں یہ خیال پروان چڑھا کہ امریکی سرمایہ داری میں یہ حالاتِ زندگی ”معمول“ ہیں۔ آج بھی آپ کو پرانی نسلیں مل جاتی ہیں جو ماضی کو یاد کرتی ہیں کہ ”وہ اچھے دن“، ”جب ہم امریکہ میں اشیاء بناتے تھے“۔ کھانے کی جگہوں، ہائی اسکول فٹ بال کھیل، کوکا کولا اشتہارات اور نئے رہائشی مضافات کے نقوش ذہن میں ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ٹرمپ دانستہ طور پر مسلسل ”امریکہ کو پھر سے عظیم بنا دو“ کا وعدہ کر کے اُس عہد کی پرانی یادوں کو استعمال کر رہا ہے۔

لیکن یہ معمول نہیں غیر معمول تھا اور اس کا ظہور جنگ کے بعد مخصوص سیاسی اور معاشی عوامل کے ادغام میں ممکن ہوا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں ایک عالمی معاشی بحران اور زیادہ سنجیدہ سامراجی مخالفین کے دوبارہ ابھار میں امریکی حکمران طبقہ محنت کش تحریک پر حملہ آور ہو گیا اور سرمایہ داری ایک مرتبہ پھر اپنے تاریخی معمول کی جانب گامزن ہونے لگی۔

منافعوں پر مبنی معاشی منڈی کے دو خاصے، آٹومیشن اور آؤٹ سورسنگ، کروڑوں افراد کو ماضی میں میسر مستحکم زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع ہو گئے۔ 1943ء میں کل امریکی نوکریاں کا 39 فیصد حصہ مینوفیکچرنگ نوکریاں تھیں جو 2010ء کی دہائی میں 8 فیصد رہ گئیں۔ بیورو برائے لیبر شماریات کی ایک 2020ء کی رپورٹ کے مطابق مینوفیکچرنگ نوکریاں ”پانچ (معاشی) بحرانوں میں گرتی رہیں اور ہر مرتبہ نوکریوں کی بحالی بحران سے پہلے کی سطح پر کبھی نہیں ہو سکی۔“

اصلاح پسند اور لیفٹ لبرلز اس کو ایسے بنا کر پیش کرتے ہیں جیسے یہ محض غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ در حقیقت یہ رجحانات سرمایہ داری کی معاشی منطق کا حصہ ہیں۔ سرمایہ داری میں آٹومیشن کے پُر تضاد اثرات کی تشریح کرتے ہوئے مارکس نے ”اجرت، محنت اور سرمایہ“ میں بیان کیا کہ کیسے نئی مشینری کا تعارف؛

”محنت کشوں کی دیو ہیکل تعداد کو سڑکوں پر پھینک دیتا ہے اور جیسے جدت اور پیداوار بڑھتے جاتے ہیں ان (محنت کشوں) کی مزید چھوٹی تعداد فارغ ہوتی جاتی ہے۔۔ اگر ہم یہ تصور کر بھی لیں کہ وہ تمام افراد، جو مشینری کی وجہ سے براہ راست بیروزگار ہوئے ہیں اور آنے والی اگلی تمام نسل اسی صنعتی سیکٹر میں روزگار کا نتظار کر رہی تھی، اگر انہیں کوئی نیا روزگار مل بھی جاتا ہے۔۔ کیا ہم یقین کریں کہ یہ نیا روزگار اتنی ہی اجرت دے گا جتنی پچھلے روزگار میں مل رہی تھی؟ اگر ایسا ہو تو یہ سیاسی معیشت کے قوانین کے خلاف ہے۔“

اس پورے دور میں یہی سب کچھ عوام کی ایک قابل ذکر آبادی کے ساتھ ہوا ہے کیونکہ بہتر اجرت والی مینوفیکچرنگ نوکریوں کی جگہ مسلسل کم اجرتی سروس سیکٹر کی نوکریاں بڑھتی رہی ہیں جن میں سے اکثریت محض پارٹ ٹائم کام ہی دیتی ہیں۔ جن کی مینوفیکچرنگ نوکریاں بچ گئیں ان کی حقیقی اجرتوں میں مسلسل کمی ہوتی رہی۔ اس سارے عمل میں غیر فعال اور طبقاتی تعاون کرنے والی لیبر اشرافیہ حکمران طبقے کی معاونت کرتی رہی۔

ایلن گرین سپین اور ایڈرین وولڈرج نے ”امریکہ میں سرمایہ داری: متحدہ ریاستوں کی معاشی تاریخ“ میں بیان کیا ہے کہ:

”1900-73ء کے دوران امریکہ میں حقیقی اجرتوں میں سالانہ اضافہ 2 فیصد تھا۔ ان سالوں کا شمار کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عمومی اجرت (اور اس سے جڑا عمومی معیار زندگی) ہر 35 سال بعد دگنی ہوتی رہی ہے۔ 1973ء میں اس رجحان کا اختتام ہوا اور امریکی بیورو برائے لیبر شماریات کے مطابق پیداواری اور غیر نگران مزدوروں کی عمومی حقیقی اجرتوں میں گراوٹ شروع ہو گئی۔ 1990ء کی دہائی میں ایک پیداواری مزدور کی عمومی گھنٹہ وار حقیقی اجرت 1973ء کے مقابلے میں 85 فیصد سے کم رہ گئی تھی۔“

2018ء میں پیو ریسرچ سنٹر (Pew Research Center)کی ایک رپورٹ نے اس کی تصدیق کی کہ، ”زیادہ تر امریکی محنت کشوں کے لیے حقیقی اجرتوں میں دہائیوں سے اضافہ نہیں ہوا“۔ اس عہد میں عدم مساوات میں دیو ہیکل اضافہ ہوا اور ڈیپارٹمنٹ برائے خزانہ کی 2023ء میں ایک رپورٹ کے مطابق اجرتیں مزید پرانتشار ہو گئیں، چھٹیوں میں گزرنے والا وقت کم ہونے لگا اور امریکی ریٹائرمنٹ میں آرام دہ زندگی گزارنے سے مسلسل دور ہوتے چلے گئے۔ ”نسلوں کے درمیان معاشی نقل و حرکت بھی کم ہو چکی ہے۔۔ 1940ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے 90 فیصد بچے 30 سال کی عمر تک اپنے والدین سے زیادہ کمائی کر رہے تھے جبکہ 1980ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے نصف بچے ہی اپنے والدین سے زیادہ کمائی کر رہے ہیں۔“

اس ساری صورتحال کا 2008ء کے عالمی سرمایہ دارانہ بحران سے پہلے ہی عوامی شعور پر در پردہ ہی صحیح لیکن دیو ہیکل اثر پڑ چکا تھا۔ 2008ء کی ”عظیم کساد بازاری“ کے بعد امریکی تاریخ کی طویل ترین اور کمزور ترین معاشی بحالی ہوئی۔

لازمیت اپنا اظہار حادثے کے ذریعے کرتی ہے

ظاہر ہے اس سب کا ایک سیاسی رد عمل ہونا ناگزیر تھا۔ 2016ء کے انتخابی دور کا آغاز اس امید سے ہوا تھا کہ یہ جیب بش اور ہیلری کلنٹن کے درمیان ایک ”معمول“ کا ٹاکرا ہو گا۔ لیکن ایک معیاری مرحلہ عبور ہو چکا تھا۔ جلد ہی واضح ہو گیا کہ کروڑوں امریکی محنت کش اب اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں سے متنفر ہو چکے ہیں۔

برنی سینڈرز کے گرد محنت کشوں اور نوجوانوں میں موجود ترقی پسند قوتیں مجتمع ہو گئیں جو ایک نیم ”سوشلسٹ“ پروگرام پیش کر رہا تھا جس میں مفت کالج تعلیم، شعبہ صحت میں اصلاحات اور عوامی ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے نوکریاں دینا شامل تھا۔ اس دوران ٹرمپ نے جنگجوانہ انداز میں رائٹ وِنگ رجحان رکھنے والے افراد کے زیر سطح غم و غصے کو بھڑکایا۔ کئی ٹرمپ حامی سینڈرز کی مہم سے ہمدردی کرتے تھے اور انہیں جیتا جا سکتا تھا۔ لیکن برنی سینڈرز کے برعکس، جو ڈیموکریٹک پارٹی کنونشن میں پارٹی کے سامنے سرنگوں ہو چکا تھا، ٹرمپ آخری وقت تک بے باکی سے لڑتا رہا۔ ایک طرف سینڈرز اپنی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی حصہ امیدوار کو وفا داری کا یقین دلا رہا تھا اور دوسری طرف ٹرمپ تمام رکاوٹوں کو روندتا ہوا اپنی پارٹی کا امیدوار بننے میں کامیاب ہو گیا۔

انتخابات قریب آنے کے ساتھ کلنٹن نے اپنی امیدواری کو سٹیٹس کو کا تسلسل قرار دیا اور کہا کہ ”بطور صدر میں ڈیموکریٹک کامیابیوں کا ریکارڈ آگے بڑھاؤں گی۔ میں صدر اوبامہ کی کامیابیوں کا دفاع کروں گی اور انہیں مزید آگے بڑھاؤں گی“۔ لیکن وہ یہ بھول گئی کہ تاحیات (ڈیموکریٹک پارٹی) حامیوں سمیت کروڑوں افراد کے لیے اوبامہ میراث کے تسلسل کا مطلب الام و مصائب سے بھری زندگی کا ہی تسلسل تھا۔ اس کے معنی بند فیکٹریاں، رسٹ بیلٹ قصبوں (امریکہ میں سابق مینوفیکچرنگ علاقے۔ مترجم) کی جاری بربادی، نشے کی قومی وباء اور کم اجرتی سروس سیکٹر کی نوکریوں کا بڑھنا تھا۔

دوسری طرف ٹرمپ اپنے آپ کو ایک باہر کا فرد بنا کر پیش کرتا رہا جس کا عزم واشنگٹن جوہڑ کو خالی کرنا تھا۔ اس نے بالکل مختلف پیغام دیا کہ ”ہماری تحریک کا مقصد ایک ناکام اور کرپٹ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا متبادل ایک نئی حکومت ہے جسے آپ، امریکی عوام کنٹرول کرو گے۔۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے ہماری فیکٹریاں اور نوکریاں برباد کر دی ہیں جو میکسیکو، چین اور دنیا کے دیگر ممالک میں جا رہی ہیں۔ یہ ایک عالمی طاقت کا ڈھانچہ ہے جو ان معاشی فیصلوں کا ذمہ دار ہے جنہوں نے ہمارے محنت کش طبقے کو لوٹ لیا ہے، ہمارے ملک کی دولت چوری کر لی ہے اور یہ سارا پیسہ مٹھی بھر بڑی اجارہ داریوں اور سیاسی ہستیوں کی جیبوں میں ڈال دیا ہے۔“

جب آپ ان پیغامات اور ان کے سیاق و سباق کا موازنہ کریں گے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ٹرمپ کیوں 2016ء کے انتخابات میں فاتح تھا۔

یقینا یہ شعلہ بیانی محض سفاک لفاظی اور شاطر چالبازی ہے۔ در حقیقت 2015ء میں ٹرمپ نے ایک نجی ملاقات میں ییل (Yale)یونیورسٹی کے بزنس پروفیسر جیفری سونن فیلڈ کو بتایا تھا کہ وہ دانستہ طور پر برنی سینڈرز کا اجارہ داریوں کے خلاف پیغام کو چرا رہا ہے کیونکہ یہ مؤثر ہے۔ لیکن کسی بھی حقیقی اسٹیبلشمنٹ مخالف قوت کی عدم موجودگی میں ٹرمپ غم و غصے کے لہر پر تیرتا ہوا وائٹ ہاؤس جا پہنچا جس میں غیر جمہوری الیکٹورل کالج نے کلیدی کردار ادا کیا جسے بانیان مملکت نے بنایا ہی اس مقصد کے لیے تھا کہ اس طرح کے ”پاپولر جذبات“ کا مقابلہ کیا جا سکے۔

حکمران طبقے کے نکتہ نظر سے ٹرمپ ایک ”بے قابو عنصر“ ہے جس نے ریپبلیکن پارٹی اور صدارت پر قبضہ کر لیا ہے۔ حکمران طبقے کی اکثریت شدید متنفر تھی کہ اتنا تنگ نظر، خود غرض اور غیر متوقع انسان ان کا نظام چلا رہا ہے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ ”جدید ریاست کی عاملہ پورے حکمران طبقے کے روزمرہ معاملات چلانے کی ایک کمیٹی سے زیادہ کچھ نہیں“ اور اس کام کے لیے سب سے زیادہ سنجیدہ سرمایہ دار ٹرمپ پر اعتماد کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔

تمام ہلڑ بازی اور اسکینڈلوں کے پس پردہ اس کی صدارت کا خاصہ وہی روایتی ریپبلیکن پارٹی پالیسیاں تھیں جن میں اس کا مشہور زمانہ کارپوریٹ ٹیکس کو کم کرنا بھی شامل تھا۔ تحفظاتی پالیسیوں کے عالمی رجحانات سے مطابقت میں اس نے محصولات لاگو کیے جن میں سے زیادہ تر کو بائیڈن نے جاری رکھا۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ ان سالوں میں عمومی معاشی استحکام موجود تھا اور ساتھ ہی پیش رو اوبامہ اور بش کی طرح خسارہ اخراجات (دیوہیکل اخراجات کی وجہ سے خسارے کو پیسے چھاپ کر پورا کرنا۔ مترجم) بھی جاری رکھے گئے۔ 2019ء میں افق پر ایک معاشی بحران کے آثار نمودار ہو چکے تھے لیکن اس نے کامیابی سے معاشی بربادی کا سارا ملبہ کرونا وباء پر ڈال دیا۔ مسلسل انتشار کے نتیجے میں ”اور کوئی بھی لیکن ٹرمپ نہیں!“ موڈ نے جنم لیا جس کی بنیاد پر بائیڈن بمشکل وائٹ ہاؤس تک پہنچا۔ لیکن انتخابات دھاندلی اور بائیڈن حکومت میں دیوہیکل افراط زر نے ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی پر گرفت مزید مضبوط کر دی ہے۔

بین الطبقاتی انتخابی اتحاد

بورژوا میڈیا میں یہ عام روش ہے کہ امریکی سیاست کو دو بلاکوں کے حوالے سے پیش کیا جائے جس میں لبرل میڈیا تمام ”ٹرمپ حامیوں“ کو بنیادی طور پر ایک قسم کا رجعتی ہجوم بنا کر پیش کرتا ہے۔ یقینا ٹرمپ کے کچھ گرم جوش حامی شدید رجعتی ہیں جن میں کچھ فسطائی گروہ بھی شامل ہیں۔ رجعتی چھوٹے کاروباریوں کی ایک پرت بھی اس کی حامی ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ٹرمپ کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد محنت کش افراد ہیں جن کی زندگیاں گلی سڑی سرمایہ داری نے تباہ و برباد کر دی ہیں۔

کئی افراد کے لیے وہ ڈیموکریٹوں کے مقابلے میں ”کم تر برائی“ ہے۔ وہ اس کے اعلانیہ شاونزم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے باوجود اس کی حمایت کرتے ہیں۔ مثلاً ایک 2024ء پیو ریسرچ رائے شماری کے مطابق 91 فیصد ریپبلیکن ووٹر ”بہت زیادہ یا کچھ پُر اعتماد“ تھے کہ معاشی پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ اچھے فیصلے کر سکتا ہے جبکہ صرف 26 فیصد ”اس کے ذاتی افعال کو پسند کرتے ہیں“۔

وال سٹریٹ جرنل نے ایک فورڈ محنت کش کا انٹرویو کیا جو یونائیٹڈ آٹو ورکرز یونین کا ممبر تھا اور 2016ء میں ٹرمپ انتخابی مہم تک غیر سیاسی تھا۔ جب اسے ٹرمپ کی حمایت کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ”مجھے پتا تھا کہ ڈیموکریٹس کے پاس 1990ء کی دہائی میں لیفٹ محنت کش افراد موجود تھے۔ ٹرمپ کوئی غیر معمولی دماغ نہیں ہے۔ اس نے بس جان لیا ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور وہ بہادر ہے کہ ان افراد کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔ تارکین وطن کی دیو ہیکل تعداد، گرین نیو ڈیل۔۔ یہ سب بکواس ہے۔ اس سے محنت کش طبقے کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔“

لیبر قائدین اور لیفٹ اصلاح پسندوں کی طبقاتی اتحاد پالیسی کا نتیجہ یہی کنفیوژن اور بگڑا ہوا نکتہ نظر نکلتا ہے۔ امریکی محنت کش طبقے کو اپیلیں کر کے ٹرمپ نے کئی افراد کی حمایت حاصل کر لی ہے جو اپنے آپ کو محنت کش سمجھتے ہیں۔ اس لیے 2024ء میں ریپبلیکن پارٹی پلیٹ فارم نے وعدہ کیا کہ وہ ”امریکی محنت کشوں اور کسانوں کا غیر منصفانہ تجارت کے خلاف دفاع کریں گے“، ”امریکی خواب واپس آئے گا اور دوبارہ سستا ہو گا“ اور ”تاریخ کی عظیم ترین معیشت تعمیر کی جائے گی“۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ یہ کام سرمایہ دارانہ بحران میں ناممکن ہے۔

ایک عوامی کمیونسٹ پارٹی اگر ایک ایسا طبقاتی پروگرام دے جس کا مقصد سب کے معیار زندگی میں بہتری ہو تو وہ ٹرمپ کے کئی محنت کش حامیوں کو جیت سکتی ہے۔ حل یہ نہیں ہے کہ تارکین وطن کو مورد الزام ٹھہرایا جائے یا موسمیاتی تبدیلی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر حملہ کیا جائے۔۔ بلکہ فارچون 500 کمپنیوں کو محنت کش کنٹرول میں قومیاء کر ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت تعمیر کی جائے۔ لیکن محنت کش طبقے کی قیادت کے بحران میں یہ پرتیں رائٹ وِنگ کی حامی بنی ہوئی ہیں۔

کیا ٹرمپ ایک آمریت کا خواہش مند ہے؟

ٹرمپ کے ابھار اور خاص طور پر پہلی صدارت اور پھر 2021ء میں 6 جنوری کے دن امریکی کانگریس پر حملے کے بعد، لبرلز نے رونا دھونا ڈالا ہوا ہے کہ امریکہ کو فسطائیت اور آمریت سے خطرہ ہے۔ یہ ایک سطحی موازنہ ہے اور ڈرانے کی ایک چال ہے تاکہ ڈیموکریٹس کے لیے حمایت حاصل ہو۔

قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ آخر ”چاہتا“ کیا ہے لیکن یہ کوئی فیصلہ کن سوال نہیں ہے۔ اصل اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ طبقاتی قوتوں کے توازن میں ٹرمپ ایک آمریت لاگو کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے، چاہے وہ ایک فسطائی ریاست ہو یا ایک عدم مستحکم عسکری آمریت۔ یہ ٹرمپ کی ذاتی خواہشات کا سوال نہیں ہے بلکہ طبقات کے درمیان سماجی تعلقات کا سوال ہے۔ آج کے امریکہ میں کوئی بھی سرمایہ دارانہ ریاست 12 کروڑ سے زائد امریکی محنت کشوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی جو امریکی سماج کو چلاتے ہیں اور دہائیوں کی نیند کے بعد اب جاگ رہے ہیں۔

اینگلز نے ”لڈوگ فیورباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ“ میں بیان کیا تھا کہ جب ہم تاریخ کا تجزیہ کریں تو ”سوال یہ نہیں ہے کہ ایک فرد واحد، چاہے وہ کتنا ہی عظیم (اہم) ہو، اس کی خواہشات کیا ہیں بلکہ اصل خواہشات وہ ہیں جو دیو ہیکل عوام، پوری قوم اور پھر ہر قوم میں موجود پورے طبقات کو متحرک کرتے ہیں۔“

فسطائیت ایک منفرد عسکری آمریت ہے جس کی بنیاد غم و غصے سے بپھری پیٹی بورژوازی ہوتی ہے جس کے ذریعے منظم محنت کش طبقے کو کچل دیا جاتا ہے۔ اٹلی، جرمنی اور اسپین میں اقتدار حاصل کرنا تاریخ کا ایک

امریکہ میں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے جہاں دیوہیکل قوت رکھنے والا محنت کش طبقہ ابھی تک کسی شکست سے دوچار نہیں ہوا ہے۔ ٹرمپ کے لیے قریب المدت میں یا کچھ عرصے میں ایک بونا پارٹسٹ عسکری آمریت بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے طبقاتی جدوجہد کو ایک بند گلی میں داخل ہونا ہو گا اور پھر ٹرمپ کو عسکری قوتوں کے قابل ذکر حصے کی حمایت درکار ہو گی۔۔ فی الحال ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔

2020ء میں بائیڈن سے شکست خوردہ ہونے کے بعد ٹرمپ اقتدار پر قابض رہنا چاہتاتھا اور اس کوشش میں اس نے کئی آپشنز کا تجربہ کیا۔ لیکن امریکی حکمران طبقہ اپنی گرفت دوبارہ مضبوط کرنے کے لیے پاگل ہو چکا تھا اور اس سلسلے میں اس کی کسی صورت مدد نہیں کی جا سکتی تھی۔ کانگریس پر حملے سے پہلے واشنگٹن پوسٹ نے ایک رائے شائع کی جس پر دس سابق سیکرٹری دفاع کے دستخط موجود تھے جنہوں نے انتخابی نتائج پر ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کی شدید مخالفت کی تھی۔ کانگریس پر حملہ کرنے والے ٹرمپ حامی عام افراد تھے جو اگر وسیع تر منظر نامے میں دیکھے جائیں تو آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ ان کے پاس کوئی منصوبہ یا حکمران طبقے کی کوئی حمایت موجود نہیں تھی اور ان کا حقیقی طور پر اقتدار پر قبضہ کرنے کا رتی برابر امکان بھی موجود نہیں تھا۔

ٹرمپ کوئی ”معمول“ کا سیاست دان نہیں ہے اور اس کی شعلہ بیانی آمرانہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے حامی یقینا ایک فسطائی تحریک سے نہیں ہیں اور اس کا ابھار امریکی عوام میں رائٹ وِنگ سیاست کی جانب ایک بنیادی جھکاؤ کی عکاسی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ عدم استحکام اور محنت کش طبقے کے سامنے ایک مربوط طبقاتی متبادل کی عدم موجودگی کا اظہار ہے۔ محنت کش طبقہ انقلابی جدوجہد میں کئی شکستوں سے دوچار اور تھکاوٹ کا شکار ہو گا تو ہی ٹرمپ کے لیے ایک عسکری آمریت مسلط کرنے کا آپشن کھل سکتا ہے۔ لیکن اس وقت صورتحال مکمل طور پر الٹ ہے یعنی ہم اگلے کئی سال طبقاتی جدوجہد میں دیو ہیکل اور تاریخی اٹھان دیکھیں گے۔

امریکی سرمایہ داری کو ”دوبارہ عظیم“ نہیں بنایا جا سکتا

2016ء میں ایک قصبے کے ہال میں باراک اوبامہ سے پوچھا گیا کہ محنت کشوں کا مستقبل کیا ہے کیونکہ نوکریاں مسلسل ختم ہو رہی ہیں۔ کیونکہ اوبامہ دو بار صدر بننے کے بعد تاحیات صدارت کی دوڑ سے باہر ہو چکا تھا، اس نے معمول سے ہٹ کر زیادہ سچ بولتے ہوئے آٹومیشن اور بیرون ملک نوکریوں کی منتقلی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نوکریاں ”اب کبھی واپس نہیں آئیں گی“۔ ٹرمپ کا وعدہ کہ ”وہ تمام نوکریاں واپس لائے گا“، لیکن اوبامہ نے سوال کیا کہ ”آپ یہ کیسے کریں گے؟ آپ کیا کریں گے؟۔۔ آپ کے پاس کیا جادو ہے؟“

یہ سرمایہ داروں اور ان کے سیاست دانوں کے لیے ایک کڑوا سچ ہے۔ ان کے پاس ایسی کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے جس کے ذریعے معاشی بڑھوتری اور استحکام بحال کیا جائے۔ کوئی سرمایہ دار سیاست دان سرمایہ دارانہ معیشت کی سمت کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ سرمایہ داری اپنی سرشت میں پر انتشار پیداوار ہے اور بورژوا انتخابات محض یہ فیصلہ کریں گے کہ امریکی سرمایہ داری کی ڈوبتی کشتی کا اگلا کپتان کون ہو گا۔

ٹرمپ کا ابھار طویل رجحانات کا انجام ہے۔۔ دہائیوں سے جاری امریکی سرمایہ داری کا نامیاتی انحطاط، لیفٹ اور محنت کش قیادت کی تاریخی تنزلی۔ اس کو شکست دینے کے کسی بھی تناظر میں طویل تاریخ کا جائزہ بھی لینا ہو گا۔ ڈیموکریٹس وقتی طور پر بیلٹ بکسوں کے ذریعے ٹرمپ کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی نظام کے ناگزیر تضادات کو حل نہیں کر سکتے۔ جب تک ایسے امیدوار موجود ہوں گے جو سٹیٹس کو اور سیاسی کرپشن کے خلاف جدوجہد کی شعلہ بیانی کریں گے، اسٹیبلشمنٹ سیاست دان سیاسی منظر نامے پر ان کی جاری حاکمیت کو روکنے میں ناکام رہیں گے۔ لیکن رنگ بے رنگ ”پاپولزم“ کافی نہیں ہے، صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی مستحکم نوکریوں اور پوری عوام کے لیے بہتر معیار زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے تاکہ ہر قسم کی رجعتی شعلہ بیانی کی معاشی بنیادیں ہی ختم ہو جائیں۔

ایسے پروگرام کی فتح مند جدوجہد کے لیے کمیونسٹوں کو تمام سرمایہ دارانہ سیاسی پارٹیوں کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز دونوں محنت کش طبقے کے دشمن ہیں جو امریکی سرمایہ داری کے نامیاتی انحطاط کا کچھ نہیں کر سکتے۔ تجربہ سکھاتا ہے کہ ”کم تر برائی“ کو ووٹ ڈالنا بیکار ہے اور در حقیقت وہ زرخیز زمین تیار کرتا ہے جس پر ”بڑی برائی“ پوری شد و مد کے ساتھ واپس اُگ آتی ہے۔ ہمیں ہر صورت اپنے سیاسی پرچم کو بے داغ رکھنا ہے اور مستقبل کی تیاری کرنی ہے۔ ہمیں شعوری ادراک ہونا چاہیے کہ جن عوامل نے ٹرمپ جیسا کردار ابھارا ہے وہی اعلانیہ طبقاتی جنگ کی راہ بھی ہموار کر رہے ہیں۔ کیونکہ ٹرمپ اپنے وعدے پورے نہیں کر سکتا اس لیے وہ بھی اپنے حامیوں کی نظر میں رسوا ہو گا۔

ہماری فوری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک طبقاتی طور پر آزاد اور منظم کمیونسٹ پارٹی کو تعمیر کریں جو حتمی طور پر محنت کش طبقے کی اکثریت کو دونوں پارٹیوں سے جیتے گی۔ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ امریکہ میں سیاسی پولرائزیشن کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور محنت کش طبقے کے درست غم و غصے کو مشترکہ دشمن کی جانب منظم کیا جائے۔۔ یعنی بذاتِ خود سرمایہ دارانہ نظام۔

Source By – www.marxist.pk

Loading

The post ٹرمپ ازم کیا ہے؟ – RCP | انقلابی کمیونسٹ پارٹی appeared first on Asia Commune.

]]>
8134
Students Protest Gains Momentum In Lahore Over Punjab College Incident | Dawn News https://asiacommune.org/2024/10/15/students-protest-gains-momentum-in-lahore-over-punjab-college-incident-dawn-news/ Tue, 15 Oct 2024 10:42:02 +0000 https://asiacommune.org/?p=7999 The post Students Protest Gains Momentum In Lahore Over Punjab College Incident | Dawn News appeared first on Asia Commune.

]]>

Loading

The post Students Protest Gains Momentum In Lahore Over Punjab College Incident | Dawn News appeared first on Asia Commune.

]]>
7999
Join Zoom Meeting https://asiacommune.org/2024/10/11/join-zoom-meeting/ Fri, 11 Oct 2024 16:22:03 +0000 https://asiacommune.org/?p=7961 Join Zoom Meetinghttps://us02web.zoom.us/j/82497540102?pwd=s8yUHFtZm57uhgbqWGEqpfeQMUISaN.1 Meeting ID: 824 9754 0102Passcode: 638300 

The post Join Zoom Meeting appeared first on Asia Commune.

]]>
Join Zoom Meeting
https://us02web.zoom.us/j/82497540102?pwd=s8yUHFtZm57uhgbqWGEqpfeQMUISaN.1

Meeting ID: 824 9754 0102
Passcode: 638300 

Loading

The post Join Zoom Meeting appeared first on Asia Commune.

]]>
7961
بم نہیں، کتابیں! میزائل اور ٹینک نہیں، ہسپتال اور سکول!جنگیں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کی منافع خوری میں اضافہ https://asiacommune.org/2024/09/25/%d8%a8%d9%85-%d9%86%db%81%db%8c%da%ba%d8%8c-%da%a9%d8%aa%d8%a7%d8%a8%db%8c%da%ba-%d9%85%db%8c%d8%b2%d8%a7%d8%a6%d9%84-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%b9%db%8c%d9%86%da%a9-%d9%86%db%81%db%8c%da%ba%d8%8c-%db%81/ Wed, 25 Sep 2024 15:18:15 +0000 https://asiacommune.org/?p=7884 Analysis, International |تحریر: آرتورو رادریگز، ترجمہ: عمر ریاض| لینن نے ایک بار کہا تھا ”جنگ ایک خوفناک چیز ہے؟ ہاں، لیکن یہ ایک بہت منافع…

The post بم نہیں، کتابیں! میزائل اور ٹینک نہیں، ہسپتال اور سکول!جنگیں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کی منافع خوری میں اضافہ appeared first on Asia Commune.

]]>
Analysis, International

|تحریر: آرتورو رادریگز، ترجمہ: عمر ریاض|

لینن نے ایک بار کہا تھا ”جنگ ایک خوفناک چیز ہے؟ ہاں، لیکن یہ ایک بہت منافع بخش چیز ہے“۔ مختلف سامراجی ممالک کے مابین موجودہ تنازعات اور پراکسی جنگوں کی شدت ایک بار پھر لینن کو بالکل درست ثابت کر رہی ہے۔ جبکہ ہزاروں لوگ غزہ، یوکرین، کانگو، سوڈان اور دیگر جگہوں پر قتل ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر دفاعی اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں، چند سرمایہ دار اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ مزدور طبقہ اس مہلک خرچ کی قیمت چکا رہا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اہم سامراجی طاقتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات اور نئی پراکسی جنگوں نے سرمایہ دارانہ حکومتوں کو فوجی اخراجات کو بے مثال حد تک بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 2022ء میں عالمی فوجی اخراجات میں 3.7 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 2.24 ٹریلین ڈالر کی نئی بلندی پر پہنچ گیا۔ نیٹو اتحادیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے کم از کم 2 فیصد تک بڑھائیں اور تمام رکن ممالک اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سارا ٹیکس دہندہ کا پیسہ کس کے پاس جا رہا ہے؟

فنانشل ٹائمز کے مطابق، 2026ء میں 15 سب سے بڑے اسلحہ ساز (جنہیں ’دفاعی ٹھیکیدار‘ کہا جاتا ہے) کی پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ وہ 52 بلین ڈالر کا منافع کمائیں گے اور اس میں سے نصف سے زیادہ منافع پانچ امریکی کمپنیاں (لاک ہیڈ مارٹن، آر ٹی ایکس، نارتھروپ گرومین، بوئنگ، اور جنرل ڈائنامکس) کما رہی ہیں۔“

یورپ کی دفاعی کمپنیوں کے سٹاک میں 2023ء میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ایسی کمپنیوں، جیسے کہ اسیلسان (Aselsan)، ہندوستان ایروناٹکس (Hindustan Aeronautics) اور رہائنمیٹل (Rheinmetall) کے حصص 2022ء کے بعد سے 340 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ سرمایہ دار اپنی نام نہاد اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر رہے ہیں تاکہ وہ اس جنگی منافعے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ایک دفاعی صنعت کے پیداکار نے کہا: ”کچھ مہینے پہلے لوگ ہم پر پابندی عائد کرنا چاہتے تھے، کہتے تھے کہ یہ صنعت بہت بری ہے۔ اب دنیا بالکل بدل گئی ہے۔“

یہ کمپنیاں مغربی حکومتوں کے ساتھ منافع بخش معاہدے کر رہی ہیں تاکہ یوکرین، اسرائیل اور تائیوان کو اسلحہ مہیا کیا جا سکے، ساتھ ہی اپنے ملکوں کے فوجی ذخائر کو دوبارہ بھرا جا سکے اور اپنی فوجوں کو مضبوط کیا جا سکے۔ یہ نئے ٹینک، میزائل اور گولے غزہ، لبنان، ڈونباس، یا کیف کے غریب لوگوں کے گھروں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، یا پھر بہترین صورت میں، امریکی یا مغربی یورپ کے فوجی گوداموں میں زنگ آلود ہو کر سڑ رہے ہیں۔

تاہم، ان حیرت انگیز اعداد و شمار کے باوجود صنعتی پیداوار میں واقعی اضافہ نہیں ہو رہا۔ یورپ کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے پاس 300 ارب ڈالر سے زیادہ کے آرڈرز کا بیک لاگ ہے اور انہیں اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔

کیوں؟ سرمایہ دار صنعتی صلاحیت میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ اس کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں، جیسے کہ ”سپلائی چین کی مسلسل رکاوٹیں اور مزدوروں کی کمی“ یا اس خوف کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ مانگ ایک وقت کے بعد کم ہو جائے گی۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، ایک دفاعی مشیر نے کہا، ”سیاست تبدیل ہو سکتی ہے، سیکیورٹی کے اندازے تبدیل ہو سکتے ہیں اور اسی طرح دفاعی مانگ بھی۔“ تو کہاں گئیں ان کی ’کاروباری خطرات مول لینے‘ کی باتیں؟

در حقیقت، بڑے پیمانے پر اسلحے کا ذخیرہ کرنا اور نئی، وحشیانہ جنگیں معمول بنتی جا رہی ہیں کیونکہ سامراجی گروہوں کے درمیان منڈیوں اور اثر و رسوخ کے دائرے کے لیے مقابلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ نئی تباہ کن ٹیکنالوجی کی پیداوار بڑھا کر یقیناً منافع کمایا جا سکتا ہے، لیکن پیسہ کمانے کے اور بھی آسان طریقے موجود ہیں۔

اگر اس رقم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ پیداوار میں لگایا جا رہا ہے تو باقی پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اس کا جواب ایک سنیچر کنسلٹنٹ نے دیا: ”کمپنیاں عموماً اپنی بیلنس شیٹ پر بڑی مقدار میں نقد رقم رکھنا پسند نہیں کرتی ہیں۔۔۔ تو وہ اس رقم کے ساتھ کیا کرتی ہیں؟ سٹہ بازی (سٹاک بائی بیکس اور ڈیویڈنڈز) ایک طریقہ ہے۔“ صاف الفاظ میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی خزانے سے نکالا گیا اربوں ڈالر براہ راست چند سرمایہ داروں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ سرمایہ کاری کیوں کی جائے جب آپ نقد رقم سیدھی جیب میں ڈال سکتے ہیں؟

مغربی سرمایہ دار حکومتیں اسلحہ ساز کمپنیوں کی فضول خرچی کے معاملے میں کافی نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن فروری میں، امریکی بحریہ کے سیکرٹری نے صنعت کو ایک غیر معمولی عوامی تنبیہ کی، جو کہ مین سٹریم میڈیا میں رپورٹ نہیں کی گئی اور جس سے حکمران طبقے کی سیاسی پریشانیوں کا انکشاف ہوتا ہے:

”دفاعی ٹھیکیدار سٹاک بائی بیکس اور دیگر ہتھکنڈوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جو ان کی جیبوں کو بھر رہے ہیں اور دفاعی صنعتی بنیاد کو مضبوط کرنے یا شپ یارڈز میں سرمایہ کاری پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں۔

”آپ امریکی ٹیکس دہندگان سے زیادہ عوامی سرمایہ کاری کا مطالبہ نہیں کر سکتے جبکہ آپ اپنے سٹاک کی قیمتوں کو سٹاک بائی بیکس کے ذریعے بڑھاتے رہتے ہیں اور وعدہ کی گئی سرمایہ کاری کو ملتوی کرتے ہیں۔“

ڈیل ٹورو 1980ء کی دہائی کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ”کسی نے فیصلہ کیا کہ بحری جہاز سازی کو مارکیٹ کے حوالے کرنا ایک شاندار خیال ہے“، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین نے دنیا کی بحری جہاز سازی کا بڑا حصہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

”مارکیٹ نے کنٹرول سنبھال لیا اور چین نے بحری جہاز سازی اور تجارتی جہاز سازی میں سرمایہ کاری شروع کر دی، اور انہیں تمام فوائد حاصل تھے۔ سستا مزدور، کوئی ضابطہ نہیں۔“ ظاہر ہے کہ ڈیل ٹورو اسلحہ ساز کمپنیوں پر امریکی سامراجیت کے رجعتی نقطہ نظر سے تنقید کر رہا ہے، جسے دنیا کو لوٹنے کے لیے ایک طاقتور فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن غیر ارادی طور پر اس کے تبصرے سرمایہ دارانہ منڈی کی نااہلی، فضول خرچی اور بدعنوانی کو ظاہر کرتے ہیں۔ منڈی کے نظام کے یہ محافظ خود اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس چکے ہیں۔

کون قیمت چکا رہا ہے؟

سرمایہ دار منافع کما رہے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت کون چکا رہا ہے؟ مزدور طبقہ! یہ اپنے ٹیکسوں کے ذریعے براہ راست اس کی قیمت چکا رہا ہے، جیسا کہ امریکی بحریہ کے سیکرٹری ڈیل ٹورو نے تسلیم کیا۔ لیکن یہ بالواسطہ بھی اس کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔

اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ جب فوجی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے تو سماجی خدمات کو کم کر کے تباہ کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ حکومتوں کے پاس کبھی صحت یا تعلیم کے لیے پیسے نہیں ہوتے، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ہمیشہ ٹینکوں اور میزائلوں کے لیے اربوں ڈالر کا بندوبست کر لیتی ہیں۔

مثال کے طور پر، پرتگال، جو کہ عالمی سطح پر ایک چھوٹا سامراجی ملک ہے، نے 2023ء میں اپنے فوجی بجٹ میں 14 فیصد اضافہ کیا، جبکہ صحت کی دیکھ بھال کے لیے صرف 10 فیصد اضافہ کیا گیا، حالانکہ اس کا قومی صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اسے فوری نئی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ موجودہ پرتگالی حکومت نے اس دہائی کے آخر تک فوجی اخراجات کے اہداف مقرر کیے ہیں، جہاں فوجی اخراجات اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہونے والے پیسے سے تین گنا زیادہ ہوں گے! اسلحہ سازی پر ہونے والے یہ اخراجات قرضوں کا بوجھ بڑھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے مستقبل میں مزید کفایت شعاری کے اقدامات کی ضرورت ہو گی۔

لیکن اس کے ساتھ ہی جنگیں، جغرافیائی سیاسی تنازعات اور پابندیاں افراط زر کو بھی بڑھا رہی ہیں، جس سے مزدوروں کی حقیقی اجرتوں میں کمی ہو رہی ہے۔ مختصراً، مزدور طبقے کو ہر طرف سے لوٹا جا رہا ہے تاکہ جنگجوؤں کے منصوبے پورے کیے جا سکیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب بھی جنگیں شروع ہوتی ہیں، تو مزدور اور غریب ہی مرتے اور اذیت کا شکار ہوتے ہیں: پھر چاہے وہ مشرق وسطیٰ ہو، ساحل ہو، یوکرین ہو، یا پھر روس، یا کوئی اور۔

انقلابی حل

کمیونسٹ ان فوجی اخراجات میں اضافے کی مخالفت کرتے ہیں، جو مزدور طبقے سے وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ چند سرمایہ داروں کے لیے زبردست منافع پیدا کر رہے ہیں۔ ہم کتابیں چاہتے ہیں، بم نہیں! ہم ہسپتال اور سکول چاہتے ہیں، میزائل اور ٹینک نہیں!

تاہم، ہم یہ بھی خبردار کرتے ہیں کہ یہ خرچ صرف کسی حکومت کے ’نظریاتی انتخاب‘ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران مختلف سامراجی قوتوں کے مابین تنازعات کو بڑھا رہا ہے، کیونکہ عالمی منڈی کا حصہ کم ہو رہا ہے اور اسی لیے اس کو تقسیم کرنے کی جنگ بڑھ رہی ہے۔ اسلحہ سازی اب تمام سرمایہ دارانہ حکومتوں کے لیے ضروری بن گئی ہے۔ لہٰذا کمیونسٹوں کی جنگ فوجی اور سامراجی جنگوں کے خلاف ہے، اور ساتھ ہی سرمایہ داری کے خلاف بھی، تاکہ عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکے۔

Loading

The post بم نہیں، کتابیں! میزائل اور ٹینک نہیں، ہسپتال اور سکول!جنگیں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کی منافع خوری میں اضافہ appeared first on Asia Commune.

]]>
7884
نیٹو کا اجلاس ہوتے ہی اسرائیل چار دنوں میں چار اسکولوں پر بمباری کرتا ہے۔ https://asiacommune.org/2024/07/22/%d9%86%db%8c%d9%b9%d9%88-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d8%ac%d9%84%d8%a7%d8%b3-%db%81%d9%88%d8%aa%db%92-%db%81%db%8c-%d8%a7%d8%b3%d8%b1%d8%a7%d8%a6%db%8c%d9%84-%da%86%d8%a7%d8%b1-%d8%af%d9%86%d9%88%da%ba-%d9%85/ Mon, 22 Jul 2024 12:15:39 +0000 https://asiacommune.org/?p=7659 اشنگٹن ڈی سی میں نیٹو فوجی اتحاد کا اجلاس ہو رہا تھا، اسرائیل نے چار دنوں میں غزہ کے چار� اسکولوں پر بمباری کی۔ صدر…

The post نیٹو کا اجلاس ہوتے ہی اسرائیل چار دنوں میں چار اسکولوں پر بمباری کرتا ہے۔ appeared first on Asia Commune.

]]>

اشنگٹن ڈی سی میں نیٹو فوجی اتحاد کا اجلاس ہو رہا تھا، اسرائیل نے چار دنوں میں غزہ کے چار� اسکولوں پر بمباری کی۔ صدر جو بائیڈن کی دعوت پر

 اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے نیٹو سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔�خان یونس شہر کے مشرق میں واقع یونائیٹڈ نیشنز ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطین (یو این آر ڈبلیو اے) کے العودہ اسکول پر اسرائیل کی تازہ بمباری کو صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ دنیا کے لیے نیٹو کے ایک پیغام کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ .�

 اسکول واضح طور پر نشان زد اور معروف تھا۔ اس کے اندر اور آس پاس کی زمینوں پر خیموں میں بے دفاع پناہ گزینوں سے بھرا پڑا تھا ۔ ایک بار پھر بمباری میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔�غزہ کے تمام اسکول اس وقت بند ہیں کیونکہ غزہ کے 2.3 ملین افراد میں سے 85 فیصد سے زیادہ اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔ غزہ کے اسکولوں کو ضرورت کے مطابق پناہ گزینوں کے کیمپوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔اسرائیل نے بار بار طبی سہولیات اور اسکولوں کو برباد کیا ہے ۔ غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے 31 پر بمباری کی گئی ہے۔ باقی پانچ ہسپتال تقریباً غیر فعال اور تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے صحت کی سہولیات پر کل 890 حملے ریکارڈ کیے ہیں، جن میں سے 443 غزہ اور 447 مغربی کنارے میں ہوئے۔�

جرمنی، فرانس اور یورپی یونین نے مستقبل کی “تحقیقات” کے لیے پرو فارما کال جاری کی۔ اس کا سختی سے مقصد گھریلو ناراضگی کو ختم کرنا تھا۔ اگرچہ پینٹاگون اسرائیل کو ہتھیاروں کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے، جرمنی اور فرانس بھی بڑے سپلائر ہیں۔

نیٹو: بمباری کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

 جولائی9 سے 11  کو منعقدہ نیٹو سربراہی اجلاس میں، سکولوں میں ہونے والے بم دھماکے سیاستدانوں یا فوجی حکام کے لیے موضوع نہیں تھے۔ کوئی بھی احتجاجاً نیٹو سمٹ سے باہر نہیں نکلا۔ کسی بھی ملک نے اسرائیلی حکام کو جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ کوئی ہنگامی میڈیا بریفنگ نہیں دی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کو اجلاس سے روکا جائے یا اس کی مذمت کی جائے۔نیٹو اجلاس میں معمول کے مطابق کاروبار تھا۔ اسرائیل، نیٹو کا رکن نہیں بلکہ نیٹو کے 40 سے زیادہ “شراکت داروں” میں سے ایک اعلیٰ سطحی مشاورت کر رہا ہے اور نیٹو سربراہی اجلاس کو ایران، روس اور چین پر نیٹو حملوں کے مطالبات کو بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

امریکی حکام کم از کم تین روزہ نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران سختی سے تجویز کر سکتے تھے کہ اسرائیل خوراک یا ایندھن کی عوامی ترسیل کرے، جس سے کارپوریٹ میڈیا ذمہ داری کے ساتھ کوریج کر سکے۔ لیکن انسانی ہمدردی کا پیغام وہ مطلوبہ تصویر نہیں تھا جسے نیٹو، ایک امریکی کمانڈر فوجی اتحاد، پیش کرنا چاہتا تھا۔

اسرائیل نیٹو کے فوجی توسیع کے ہدف کی حمایت کرتا ہے۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ کاٹز کو نیٹو سربراہی اجلاس میں ایران اور چین کی مبینہ خطرناک سرگرمیوں کے خلاف خبردار کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم دیا گیا۔ وہاں رہتے ہوئے، کاٹز نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور وزیر خزانہ جینٹ ییلن سے بات کی۔ انہوں نے جنوبی کوریا، کینیڈا، جرمنی، ہالینڈ، جمہوریہ چیک، ڈنمارک اور دیگر کے اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات کی۔نیٹو سربراہی اجلاس روس کے خلاف جنگ کو وسعت دینے اور یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کے بارے میں ہے، جبکہ نیٹو کے دیگر ممبران کو اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کے لیے دودھ فراہم کرنا ہے۔

نیٹو کا اعلان کردہ ہدف چین کے خلاف جنگ کے لیے متحرک ہونا ہے، جسے مسلسل اتحاد کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ نیٹو سربراہی اجلاس تائیوان کو اپنے دستخط شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی ٹن نئے ہتھیار بھیجے جانے کا اعلان کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ اجلاس میں جنوبی بحرالکاہل میں امریکی اڈوں کی توسیع اور جنوبی کوریا، فلپائن اور جاپان کو مزید خطرناک ہتھیاروں کی پیش گوئی کی گئی۔

اگست:�ہوائی کے ارد گرد امریکی بحریہ کی مشقیں۔

اگست2024 میں، امریکی بحریہ کی کمان ہوائی کے ارد گرد رم آف پیسیفک فوجی مشقیں� کر رہی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی بحری جنگی مشق ہے۔نیٹو کے اہداف اس وقت تجریدی لگ سکتے ہیں جب دنیا کے لوگوں کی ہمدردی اور غم غزہ میں منظم تباہی پر مرکوز ہو۔ یہ تصور کی جانے والی سب سے غیر مساوی جدوجہد ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی مزاحمت اتنی طاقتور ہے کہ صہیونی منصوبہ ساز اور جرنیل تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نو ماہ گزرنے کے باوجود آزادی کی اس ناقابل تسخیر جدوجہد کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ فلسطین کی یکجہتی ایک عالمی مظہر ہے۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ کے ساتھ نیٹو سربراہی اجلاس میں مدعو شرکا کے ساتھ، عوامی طور پر بے دفاع شہریوں پر یہ بار بار اور سراسر مجرمانہ حملے کرتے ہوئے، دنیا کے لوگ صرف ایک چیز کا اندازہ لگا سکتے ہیں: نیٹو کا مطلوبہ پیغام یہ ہے کہ بغیر کسی حد کے جنگ ایک نیا معمول ہے۔ .

نیٹو شہری آبادیوں کے خلاف مسلسل جنگ کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سراسر دہشت گردی کے ذریعے اپنی بگڑتی ہوئی عالمی پوزیشن کو برقرار رکھنے کی مایوس کن کوشش ہے۔ اس طرح کی کارروائیاں مغربی ایشیا اور دنیا بھر میں کہیں زیادہ مزاحمت کو ہوا دے گی ۔

Loading

The post نیٹو کا اجلاس ہوتے ہی اسرائیل چار دنوں میں چار اسکولوں پر بمباری کرتا ہے۔ appeared first on Asia Commune.

]]>
7659